Nisar’s long-delayed return to assembly foiled for now

اسلام آباد: (اے یو ایس)2018کے عام انتخابات میں راولپنڈی کے حلقہ پی پی 10سے آزاد امیدوار کے طور پر پنجاب اسمبلی کے لیے منےو¿تخب ہونے والے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان تین برس بعد بھی پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہ اٹھا سکے۔کیونکہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کا موقف تھا کہ چونکہ چودھری نثار کی حلف برداری کے حوالے سے مختلف عدالتوں میں کئی معاملات زیر سماعت ہیں اس لیے ان کی حلف برداری پر کہیں حکومت کے خلاف توہین عدالت کیس نہ بن جائے۔اسمبلی سکریٹری محمد خان بھٹی نے دو روز کی مہلت مانگی ہے تاکہ اس دوران وہ لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بنچ سے معلوم کر سکیں کہ کہیں نثار کی حلف برداری کے خلاف کوئی معاملہ تو زیر سماعت نہیں ہے۔قبل ازیں سابق وزیرِ داخلہ نے واضح کیا تھا کہ ان کے موقف یا سوچ میں کوئی تبدیلی نہیںآئی تاہم اس کے باوجود بعض حلقے موجودہ سیاسی صورتِ حال کے تناظر میں چوہدری نثار کی پنجاب اسمبلی میں داخلہ کو اہم قرار دے رہے ہیں۔اتوار کو جاری کیے گئے ایک بیان میں چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ وہ 24 مئی کو پنجاب اسمبلی کی نشست کا حلف ا±ٹھا رہے ہیں اور ا±ن کے حلف ا±ٹھانے کا مقصد حلقے میں سیاسی حالات اور محرکات کو کنٹرول کرنا ہے۔خیال رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں چوہدری نثار علی خان کو قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے شکست ہوئی تھی تاہم پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی 10 سے وہ کامیاب قرار پائے تھے۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار کا حلف اٹھانا کسی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں بلکہ وہ آرڈیننس ہے جس میں 90 روز کے اندر حلف نہ ا±ٹھانے والے اراکینِ پارلیمنٹ کی ر±کنیت ختم کرنے کی شق بھی شامل ہے۔

تین دہائیوں سے اپنے حلقہ انتخاب میں ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے چوہدری نثار 2018 کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔چوہدری نثار نے پیر کو حلف اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسمبلی سے کسی قسم کی مراعات بشمول تنخواہ اور ٹی اے ڈی اے نہیں لیں گے۔چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ حلف اٹھانے کا بنیادی مقصد حلقے میں سیاسی حالات اور محرکات کو کنٹرول کرنا ہے، یہ عجیب منطق ہے کہ ایک طرف سیٹ چھوڑ دی جائے اور پھر دوسری سانس میں ضمنی انتخاب میں حصہ لیا جائے۔ الیکشن کا بائیکاٹ کرنا اور میدان کھلا چھوڑنا اس سے بھی بڑی سیاسی غلطی ہوگی خاص طور پر جب عام انتخابات میں ڈیڑھ دو برس باقی ہیں۔چوہدری نثار علی خان کے طرزِ سیاست کا قریب سے مشاہدہ کرنے والے سینئر صحافی اور کالم نگار نواز رضا کہتے ہیں کہ چوہدری نثارآج بھی سمجھتے ہیں کہ 2018 میں ہونے والے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی۔ا±ن کے بقول چوہدری نثار نے بطور احتجاج آج تک حلف نہیں اٹھایا تھا۔ تاہم اب وہ اسمبلی فلور پر بھی 2018 کے انتخاب کے حوالے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔انہوں نے کہا کہ میرا اندازہ ہے کہ ان کے مسلم لیگ (ن) اور مقتدر حلقوں کے ساتھ رابطے ہیں اور اگر وزیرِ اعلٰی پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کے امیدوار ہوں۔تجزیہ کار اور صحافی افتخار احمد اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار کے حلف اٹھانے کی وجہ صرف وہ صدارتی وآررڈیننس ہے جس کے مطابق نوے روز تک حلف نہ اٹھانے والے کی رکنیت ختم کردی جائے گی۔ا±ن کے بقول چوہدری نثار کو علم ہے کہ موجودہ حالات میں اگر وہ ڈی سیٹ ہو گئے تو دوبارہ الیکشن جیتنا ان کے لیے مشکل ہو گا۔ ان کے حلقے کے لوگ سوال کریں گے کہ جب آپ کو الیکشن جتوایا تو آپ نے تین برس تک حلف اٹھا کر نمائندگی کیوں نہ کی۔افتحار احمد کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک پنجاب کی سیاست میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ کیوں کہ مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ پنجاب حکومت کی ان کے بقول خراب کارکردگی عوام کے سامنے مزید عیاں ہو۔

افتحار احمد کہتے ہیں کہ اب جہانگیر ترین گروپ کے متحرک ہونے کے باوجود بھی مسلم لیگ (ن) بزدار حکومت کو ہٹانے کے موڈ میں نہیں ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق سن 2018 کے انتخاب سے پہلے ہی نواز شریف اور چوہدری نثار کے درمیان اختلافات کی خلیج واضح ہونے لگی تھی۔تجزیہ کاروں کے بقول اس معاملے میں چوہدری نثار کے بعض بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ان دنوں ان کا یہ کہنا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ نواز شریف کی ملکیت ہیں اور پارٹی کے کئی اجلاس وہاں ہوئے۔ حالاں کہ شریف خاندان اپنے بیرونِ ملک اثاثوں کی تردید کرتا رہا ہے۔ان ہی دنوں میں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کے سیاست میں ا?نے اور متحرک کردار ادا کرنے کے معاملے پر چوہدری نثار ناراض نظر آئے اور ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ شہباز شریف کو پارٹی لیڈر مانتے ہیں، اگر مریم نواز پارٹی لیڈر بنیں، تو وہ (ن) لیگ سے الگ ہوجائیں گے۔اس کے بعد نوازشریف کی طرف سے ریاستی اداروں پر تنقید اور دیگر معاملات پر بات کرتے ہوئے چوہدری نثار نے یہاں تک کہہ دیا کہ میں نے 34 سال نواز شریف کا بوجھ اٹھایا ہے۔ اس کے بعد جب انتخابات کے وقت پارٹی ٹکٹ کی بات ہوئی تو چوہدری نثار نے درخواست دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ انہوں نے کبھی بھی پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواست نہیں دی۔پارٹی میں موجود بعض مخالفین نے اس صورتِ حال کو بڑھاوا دیا اور ایک وقت آیا کہ چوہدری نثار نے آزاد حیثیت مین انتخاب لڑنے کا اعلان کر دیا جب کہ مسلم لیگ (ن) نے ان کے مقابلے میں ا±میدوار میدان میں ا±تار دیے جس سے نواز شریف اور چوہدری نثار مزید دور ہو گئے۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 59 اور این اے 63 کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 12 سے انہیں شکست ہوئی اور صرف ایک نشست پی پی 10 سے کامیاب ہوئے جس کا وہ حلف اٹھانے جا رہے ہیں۔

تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ نوازشریف اور چوہدری نثار کے درمیان ناراضگی کی کئی وجوہات ہیں لیکن پاناما اسکینڈل ہی وہ معاملہ ہے جس سے سب سے زیادہ بگاڑ ہوا۔ا±ن کے بقول چوہدری نثار کے بیانات کی وجہ سے آج تک نواز شریف چوہدری نثار سے ناراض ہیں۔البتہ، صحافی اور کالم نگار نواز رضا اس بات ست متفق نہیں اور ان کا ماننا ہے کہ نوازشریف اور چوہدری نثار کے درمیان 34 سال پرانا تعلق ہے جس میں ناراضگی تو ہو سکتی ہے لیکن صلح آج بھی ممکن ہے۔شہباز شریف کے ساتھ دوستی کے بارے میں افتخار احمد نے کہا کہ ان کی دوستی چوہدری نثار سے ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کا مطلب نواز شریف ہے۔ حتمی فیصلہ نواز شریف کا ہوگا اور سرِ دست جو حالات ہیں ان میں نواز شریف اور چوہدری نثار کی تلخی برقرار رہنے کا ہی امکان ہے۔نوازرضا کا کہنا ہے کہ صورتِ حال تبدیل ہو رہی ہے، اگر محمد زبیر کے ذریعے نواز شریف کا جنرل باجوہ کے ساتھ رابطہ ہو سکتا ہے تو نواز شریف کا چوہدری نثار کے درمیان رابطہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ا±ن کے بقول چوہدری نثار نے نوازشریف کے بارے میں کوئی براہ راست بیان نہیں دیا۔ اگر صورتِ حال تبدیل ہو اور شہباز شریف کا ملکی سیاست میں اہم کردار ہوا تو ان کا چوہدری نثار کے ساتھ تعلق کام آئے گا اور وہ پنجاب میں اہم کردار ادا کریں گے۔سن 1954 میں راولپنڈی کے علاقے چکری میں پیدا ہونے والے چوہدری نثار کا گھرانہ اس علاقہ میں فوج میں شمولیت کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ ا±ن کے ایک بھائی بھی فوج میں جنرل کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔اکتیس برس کی عمر میں چوہدری نثار نے پہلی مرتبہ سیاست میں حصہ لیا اور 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد چوہدری نثار 2013 تک ہونے والے ہر الیکشن میں کامیاب ہوتے رہے۔تجزہہ کاروں کے مطابق ان کا اپنے حلقے میں اثر ہونے کی ایک بڑی وجہ عوام کے ساتھ رابطے اور بے شمار ترقیاتی کام بھی تھے۔ملکی سطح پر سیاست میں ان کا کردار اپنی جگہ پر تاہم نوازشریف کے ساتھ ان کی قربت ہمیشہ ان کو اپنی جماعت میں آگے رکھتی تھی جب کہ شہباز شریف کے ساتھ ان کا تعلق انہیں ہمیشہ دوسروں سے الگ رکھتا تھا۔