واشنگٹن:(اے یو ایس)عالمی وبا کرونا وائرس سے متعلق حال ہی میں ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وبا کے پھوٹنے سے قبل چین کے شہر ووہان کی لیبارٹری کا عملہ اس حد تک بیمار تھا کہ اسے اسپتال کی ضرورت پیش آئی تھی۔امریکی اخبار ‘دی وال اسٹریٹ جرنل’ نے اتوار کو امریکی انٹیلی جنس کی خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین میں وبا کے پھیلاو¿ سے قبل ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی (ڈبلیو آئی وی) کے تین محققین نومبر 2019 میں بیمار ہوئے تھے۔مذکورہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی فیصلہ ساز باڈی کے اجلاس میں کرونا کے ماخذ سے متعلق تحقیقات کے اگلے مرحلے پر تبادلہ خیال کی توقع ہے۔ البتہ امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان نے ‘وال اسٹریٹ جرنل’ کی اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو کرونا وبا کے ماخذ سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت عالمی ادارہ صحت اور دیگر ممالک کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ تاکہ وبا کی ابتدا کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں جو ‘مداخلت اور سیاست سے پاک ہو۔
ترجمان نے مزید کہا ہے کہ “ہم ایسا کوئی بھی اعلان نہیں کرنے جا رہے جو ڈبلیو ایچ او کے کرونا سے متعلق جاری مطالعے پر قبل از وقت رائے ظاہر کرے۔”عالمی ادارہ صحت کے ایک رکن پیٹر بن ایبارک، کرونا وائرس سے متعلق تحقیقات کے بعد ووہان میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک چارٹ دکھا رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی ماہرین کے ذریعے کرونا سے متعلق قابل اعتماد نظریات کا مکمل طور پر جائزہ لینا چاہیے۔دوسری جانب چین کی وزارتِ خارجہ نے ‘ دی وال اسٹریٹ جنرل’ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ ‘لیب لیک’ کے مفروضے کو بڑھاوا دے رہا ہے، کیا وہ واقعی وائرس کے آغاز سے متعلق جاننا چاہتا ہے یا توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔یاد رہے کہ کرونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چین کے شہر ووہان کی ایک جانوروں کی مارکیٹ سے پھیلا تھا۔وبا کے پھیلاو¿ سے متعلق یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی تھیں کہ یہ چین کی ایک لیبارٹری میں تجربے کے دوران پھیلی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔کرونا وبا کے آغاز اور اس کے پھیلاو¿ کی وجوہات جاننے کے لیے عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے تحقیقات کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے رواں برس کے آغاز میں چین کے شہر ووہان کا دورہ بھی کیا تھا۔تحقیقاتی ٹیم کے ارکان نے ووہان میں جانوروں کی مارکیٹ کے دورے کے علاوہ سائنس دانوں اور دیگر ماہرین کے انٹرویوز بھی کیے تھے۔بعدازاں عالمی ادارہصحت نے فروری 2021 کے آغاز میں کرونا وائرس کے آغاز سے متعلق تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ پیش کی تھی۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس گیبراسس نے کہا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ چین کی لیبارٹری سے وائرس پھیلنا صرف خیالی تصور ہے اور کچھ نہیں، تاہم اس معاملے کی بھی مزید تحقیقات درکار ہے۔تاہم امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور ناروے سمیت دیگر ممالک کی جانب سے عالمی ادارہ صحت کی کرونا کے ماخذ سے متعلق تحقیقات کے نتائج پر سوالات اٹھائے تھے۔ان ممالک نے ڈبلیو ایچ او سے وبا کے پھیلاو¿ کے ابتدائی ڈیٹا تک رسائی اور مزید تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔واضح رہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کرونا وائرس کے پھیلاو¿ کا ذمہ دار چین کو ٹھہراتے رہے ہیں۔ٹرمپ نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے شواہد دیکھے ہیں کہ کرونا وائرس ووہان کی لیبارٹری سے ہی پھیلا ہے۔ تاہم چین ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔سابق امریکی صدر نے ڈبلیو ایچ او کو بھی وائرس کے پھیلاو¿ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ڈبلیو ایچ او نے کرونا وائرس کے پھیلاو¿ سے متعلق درست معلومات فراہم نہیں کیں اور سست روی سے کام لیا۔ڈونلڈ ٹرمپ یہ بھی کہتے رہے تھے کہ عالمی ادارہ¿ صحت کی زیادہ توجہ چین کی جانب ہے اور وہ چین کی بے جا تعریفیں کرتا ہے۔ سابق امریکی صدر نے عالمی ادارہ¿ صحت کے فنڈز بھی روک لیے تھے۔تاہم ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس گیبریاسس سابق صدر ٹرمپ کے ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے نے تمام ملکوں کو وبا کے پھیلاو¿ سے متعلق پیشگی اطلاع دے دی تھی۔علاوہ ازیں سابق امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے بھی کہا تھا کہ عالمی وبا کے چینی لیبارٹری سے پھیلنے سے متعلق کافی ثبوت موجود ہیں۔
