India and international challenges

سہیل انجم

اس وقت دنیا متعدد عالمی چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ جن میں دہشت گردی تو کئی سہائیوں سے موجود ہے۔ اب کرونا وائرس بھی ایک نئے چیلنج کی صورت میں سامنے آگیا ہے۔ اگرچہ اب اس کی شدت میں کافی کمی آگئی ہے لیکن اس کا خونی پنجہ اب بھی دنیا کی گردن پر ہے اور اب بھی بے شمار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کرونا ابھی جانے والا نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اتنا خطرناک ہے کہ اپنی ہیئت تبدیل کر لیتا ہے۔ جب سے دنیا پر کرونا کا سایہ پڑا ہے اس نے کئی بار اپنی ہیئت تبدیل کی ہے۔ اب ایک نیا ویرینٹ ”ڈیلٹا“ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن کر سامنے آیا ہے۔ ہندوستان جہاں برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے وہیں وہ کرونا وائرس کی دہشت گردی کا بھی نشانہ بن گیا ہے اور اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ ہندوستان کے ہمسائے میں بھی صورت حال کوئی بہت اچھی نہیں ہے۔ خطے میں چین کی سرگرمیوں سے ہندوستان تشویش میں مبتلا ہے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ امریکہ اور دیگر ممالک بھی تشویش زدہ ہیں۔ کواڈ ممالک کا گروپ بھی جس میں ہندوستان کے علاوہ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں، چین کی سرگرمیوں سے پریشان ہے۔ ہندوستان ہر عالمی فورم پر دنیا کو لاحق چیلنجز کو اٹھاتا اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ کام کرنے کے عزم کا اظہار کرتا آیا ہے۔ابھی جی سیون یا سات ممالک کے گروپ کا ایک آن لائن اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس سے ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی خطاب کیا۔

گروپ آف سیون کی چوٹی کانفرنس کے آوٹ ریچ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آمریت ، دہشت گردی ، پرتشدد انتہا پسندی ، غلط معلومات اور معاشی زور ز بردستی سے پیدا ہونے والے مختلف خطرات سے مشترکہ اقدار کا دفاع کرنے میں ہندوستان جی سیون کا فطری شراکت دار ہے۔ اس سلسلے میں وزارت خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق جی سیون چوٹی کانفرنس کے آزاد سماج اور آزاد معیشت سیشن میں وزیر اعظم مودی نے جمہوریت ، نظریاتی آزادی اور آزادی کے تئیں ہندوستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں آزاد سماج میں پنہاں حساسیت کا ذکر کیا اور ٹیکنالوجی کمپنیوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں سے اپیل کی کہ وہ اپنے صارفین کیلئے محفوظ سائبر ماحول کو یقینی بنائیں۔ وزیر اعظم نے اس سے قبل دیگر عالمی فورموں پر بھی عالمی مسائل کو اٹھایا اور ان مسائل کے حل میں ہندوستان کی بھرپور شراکت داری کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔دراصل ہندوستان ایک پر امن ملک ہے۔ وہ دنیا میں قیام امن کا خواہاں ہے۔ وہ اپنے ہمسائے میں بھی امن چاہتا ہے اور دور دراز کے خطوں میں بھی۔ وہ قوانین و ضوابط کی بنیاد پر کثیر قطبی دنیا کا طرفدار ہے اور دنیا کو لاحق موجودہ چیلنجوں کو خواہ وہ دہشت گردی ہو یا موحولیاتی تبدیلی، کرونا وائرس کی عالمی وبا ہو یا پھر دیگر چیلنجز اور دشواریاں، وہ تمام مسائل کا حل چاہتا ہے۔ وہ ہند بحر الکاہل خطے میں بھی ضوابط کی بنیاد پر سیکورٹی کا حامی ہے اور کسی بھی علاقے میں کسی ایک ملک یا طاقت کی اجارہ داری کا حامی نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں عالمی نظام میں کافی کچھ تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں اور ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ابھی بہت کچھ تغیرات پیش آنے والے ہیں۔ اس تناظر میں گزشتہ دنوں منعقد ہونے والے ہندوستان اور یوروپی یونین کے رہنماؤں کے ورچوول اجلاس کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اس اجلاس سے وزیر اعظم مودی نے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا تھا۔

اجلاس میں دنیا کو لاحق متعدد چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا گیا اور آخر میں ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا جس میں مشترکہ امور جیسے کہ کثیر قطبی دنیا میں سلامتی، خوشحالی اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا۔ اجلاس کے شرکا نے محفوظ، صاف ستھرے، ماحول دوست، مستحکم اور مزید ڈیجٹل دنیا کے قیام میں بھرپور تعاون دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ہندوستان ایک سال کے لیے یعنی 2021 اور 2022 تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن ہے۔ اس کے علاوہ وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا بھی ممبر ہے۔ وہ اپنی ان دونوں حیثیتوں میں ایک پرامن، پائیدار، خوشحال اور ترقی یافتہ دنیا کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا اس کے پڑوس یعنی ہند بحر الکاہل خطے میں چین کی بڑھتی سرگرمیاں نہ صرف اس کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی باعث تشویش ہیں۔ ہندوستان اس خطے میں بھی قوانین و ضوابط کی بنیاد پر قائم ہونے والا نظام چاہتا ہے۔ ہند یوروپی یونین کے اجلاس میں اس مسئلے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس کے شرکا نے آزاد، کھلے اور جامع قوانین کی بنیاد پر ایسے انڈو پیسفک خطے پر زور دیا جہاں علاقائی سالمیت، یکجہتی، خود مختاری اور جمہوریت کا احترام کیا جاتا ہو اور جہازوں کی آزادانہ آمد و رفت ہو اور اگر کوئی تنازعہ پیدا ہو تو بین الاقوامی قوانین کی رُو سے اسے حل کیا جائے۔ اس اجلاس کے دوران انڈو پیسفک خطے کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں یوروپی یونین کی حکمت عملی کو سراہا گیا اور ”ایشیا یوروپ میٹنگ“ اور دیگر متعلقہ علاقائی فورموں سمیت انڈو پیسفک خطے میں تعاون کو مضبوط کرنے پر زور دیا گیا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق نہ صرف ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک بھی اور خاص طور پر امریکہ بھی ایک آزاد، قانون کا پابند اور ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت کے احترام کا خواہشمند ہے۔ مشاہدین کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں ہندوستان اور یوروپ کے درمیان قربتیں بڑھی ہیں۔ سال 2019 کے اگست ماہ میں جب ہندوستان نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ کیا تو اس کے بعد کے حالات کا جائزہ خود یوروپی یونین کے رہنماو¿ں نے لیا۔ یوروپی یونین کے وفود نے دو دو بار جموں و کشمیر کا دورہ کیا اور بچشم خود وہاں کے حالات کا مشاہدہ کیا اور اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔ اس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ ملکوں کی ترقی و تنزلی میں اقتصادی و تجارتی حالات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ ہندوستان یوروپی یونین کے ساتھ اپنے اقتصادی و تجارتی رشتوں کو بھی فروغ دینا چاہتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ اجلاس میں اس پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ شرکائے اجلاس نے گڈس اینڈ سروسز اور متحرک سپلائی چَین کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔ انھوں نے عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) سے متعلق امور پر باہمی تعاون کو مضبوط کرنے کی غرض سے سینئر عہدے داروں کے درمیان مذاکرات کے آغاز سے بھی اتفاق کیا۔خیال رہے کہ دہشت گردی دہائیوں سے دنیا کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔

ہندوستان ایک عرصے سے اس کا شکار ہے اور چاہتا ہے کہ پوری دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو اور جو طاقتیں یا ممالک دہشت گردی کی اعانت کرتے ہوں ان کے خلاف کارروائی ہو۔ تاکہ دنیا سے اس لعنت کو ختم کیا جا سکے اور لوگوں کو پرامن زندگی جینے کے مواقع میسر ہوں۔ ہند یوروپی یونین نے اس معاملے پر بھی باہمی تعاون تیز کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے بین الاقوامی سلامتی، اسلحوں کی عدم توسیع اور ہتھیاروں کے خاتمے، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے صفائے اور سائبر سیکورٹی اور بحری سلامتی کو یقینی بنانے میں باہمی تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا اور یہ عہد کیا کہ دنیا کو پر امن اور خوشحال بنانے میں ان سے جو ہو سکے گا وہ کریں گے۔
sanjumdelhi@gmail.com