اسلام آباد:(اے یو ایس ) ’پاکستان سے افغانستان ڈالرا سمگل ہونے کا ایک راستہ اور طریقہ نہیں۔ اس کے مختلف راستے اور طریقہ کار ہیں۔ مال بردار ٹرکوں میں موجود خفیہ خانوں سے لے کر ہر روز دونوں ممالک کے درمیان آنے جانے والے افراد بھی یہ کام کرتے ہیں۔ پہلے افغانستان سے پاکستان زیادہ ڈالر آتے تھے لیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ‘پاکستان کے شہر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے کمال خان (فرضی نام) پاکستان سے افغانستان ڈالر ا سمگلنگ کا طریقہ بتا رہے تھے۔کمال خان اگرچہ ڈالر کی بہت بڑے پیمانے پرا سمگلنگ کے کاروبار سے وابستہ نہیں ہیں تاہم وہ چھوٹے پیمانے پر ڈالر کے غیر قانونی طور پر کام کرنے والے منی چینجر ہیں۔پاکستان میں غیر ملکی کرنسیوں بشمول ڈالر کی خرید و فروخت کے لیے ا سٹیٹ بینک کی جانب سے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں تاہم غیر قانونی منی چینجر بھی اس کاروبار سے وابستہ ہیں جو ’گرے مارکیٹ‘ میں کام کرتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت ڈالر مقامی کرنسی کے مقابلے میں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 170 پاکستانی روپوں سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔پاکستان کے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں تاریخی اضافے کی ایک بڑی وجہ ملک کا بڑھتا ہوا درآمدی بل ہے جو تجارتی اور جاری کھاتوں کے خسارے میں بے تحاشہ اضافہ کر رہا ہے اور اس کا منفی اثر ملک کے شرح مبادلہ میں روپے پر بہت زیادہ دباو¿ کی صورت میں نکل رہا ہے۔تاہم زیادہ درآمدات کی وجہ سے روپے پر آنے والے دباو¿ کے ساتھ افغانستان کی صورتحال بھی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قدر کو بڑھا رہی ہے۔پاکستان میں نجی شعبے کی جانب سے اس کی نشاندہی حالیہ ہفتوں میں کی گئی ہے تاہم سرکاری سطح پر اس کا اعتراف گورنر ا سٹیٹ بینک نے ایک کانفرنس سے خطاب کے بعد سوال جواب کے سیشن میں کیا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتحال اور ڈالر کی قلت کی وجہ سے پاکستان سے افغانستان ڈالرا سمگل ہو رہے ہیں اور اس کا منفی اثر ملکی شرح مبادلہ پر بھی ہو رہا ہے تو گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ کسی حد تک ڈالر کی افغانستان اسمگلنگ بھی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو بڑھا رہی ہے۔گورنر اسٹیٹ بینک کی جانب سے پاک افغان سرحد پر مزید سختی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
پاکستان سے افغانستان ڈالروں کی ا سمگلنگ کیسے ہوتی ہے اور کن بڑے ذرائع سے ہوتی ہے اس کے بارے میں زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔تاہم کرنسی کے کاروبار سے وابستہ افراد سے رابطہ کرنے پر غیر قانونی طور پر منی چینجنگ کا کام کرنے والے ایک فرد سے رابطہ ممکن ہوا جنھوں نے کچھ تفصیلات سے تو آگاہ کیا تاہم اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وہ بات کرنے پر آمادہ ہوئے۔غیر قانونی منی چینجر کا کام کرنے والے کمال خان افغانستان میں ڈالر کی اسمگلنگ کے سلسلے میں بتاتے ہیں کہ پاکستان سے افغانستان ڈالر دو راستوں سے جاتا ہے۔چمن کے ذریعے افغانستان جانے والے ڈالر کی خریداری کراچی کی مارکیٹ سے کی جاتی ہے اور یہ کراچی کی قانونی مارکیٹ سے نہیں بلکہ گرے مارکیٹ سے کی جاتی ہے۔ا±نھوں نے بتایا کہ کوئٹہ میں ڈالر کی کوئی خاص مارکیٹ نہیں ہے اور وہاں صرف سیزن کے لحاظ سے غیر ملکی کرنسی کی تجارت ہوتی ہے جیسا کہ حج اور عمرے کے لیے غیر ملکی کرنسی کی ضرورت پڑتی ہے تو اس وقت کچھ سرگرمی نظر آتی ہے۔کمال کا کہنا ہے کہ کراچی سے کوئٹہ کا پورا روٹ ایک گروپ کے پاس ہے اور کوئٹہ سے چمن اور پھر افغانستان ا سمگل ہونے والے ڈالروں کا انتظام ایک اور گروپ نے سنبھال رکھا ہے۔تاہم کمال نے بتایا کہ کوئٹہ اور چمن سے افغانستان جانے والے ڈالروں کی تعداد پشاور سے افغانستان جانے والے ڈالروں میں مقابلے میں بہت کم ہے۔
پشاور سے افغانستان جانے والے ڈالروں کی زیادہ خریداری پنجاب کی مارکیٹ سے کی جاتی ہے اور اس کا مرکز راولپنڈی ہے جہاں سے ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں پشاور باآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔کمال نے بتایا کہ ڈالروں کی افغانستان ا سمگلنگ اتنا مشکل کام نہیں کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان لوگوں کی آمدورفت بہت زیادہ ہے اور یہ کام باآسانی کیا جا سکتا ہے۔کمال نے بتایا کہ افغانستان کی حدود کے اندر پاکستان کی سرحد سے ایک کلومیٹر کی مسافت پر موجود ویش منڈی میں ہی ہزاروں لوگ روزانہ آ جا رہے ہوتے ہیں۔ کمال نے بتایا کہ جو لوگ ڈالر ا سمگل کر رہے ہیں وہ کوئٹہ اور قندھار میں ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔دوسری جانب پشاور میں کارخانو بازار اور چوک یادگار میں یہ کام ہو رہا ہے کہ جہاں سے ڈالر کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ اسمگلنگ ٹرکوں کے خفیہ خانوں کے ذریعے بھی کی جاتی ہے اور مختصر تعداد میں ڈالروں کی منتقلی کی صورت میں بھی ہوتی ہے جیسے کہ 10 ہزار، 20 ہزار یا 30 ہزار ڈالر مختلف افراد کے ذریعے پاکستان سے افغانستان منتقل کیے جا سکتے ہیں۔کمال نے کہا کہ چمن اور قلعہ عبداللہ کے رہائشیوں کے بجائے یہ کام زیادہ تر کوئٹہ اور قندھار کے لوگ کر رہے ہیں۔ظفر پراچہ پاکستان میں قانونی طور پر کام کرنے والی ایک ایکسچینج کمپنی کے مالک اور ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ پشاور سے زیادہ تر افغانستان ڈالروں کی اسمگلنگ ہوتی ہے اور یہ زیادہ تر بذریعہ سڑک ہی ہوتی ہے۔ا±نھوں نے کہا کہ پشاور اور کوئٹہ اس کے دو روٹ ہیں اور وہاں سے یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔پاکستان سے افغانستان ڈالر کی اسمگلنگ اور اس کے پاکستان کے شرحِ مبادلہ پر منفی اثرات کے حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک نے اعتراف تو کیا ہے تاہم پاکستان سے افغانستان ڈالر کیوں ا سمگل ہو رہے ہیں اس کے بارے میں کمال خان نے بتایا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ کابل میں ڈالر کی پاکستانی روپے کے مقابلے میں قیمت ہے۔ا±نھوں نے بتایا کہ اس وقت کابل میں ایک ڈالر 178 پاکستانی روپے میں مل رہا ہے۔ اگر پاکستان سے آپ ڈالر 170 اور 171 روپے پر بھی لے جاتے ہیں تو بہت زیادہ پرکشش منافع اس اسمگلنگ پر ملتا ہے۔کمال نے بتایا کہ اس وقت ڈالر 174 سے 175 روپے تک کوئٹہ اور پشاور کی گرے مارکیٹ میں دستیاب ہے اور کراچی اور پنجاب کی گرے مارکیٹ میں تو اس سے بھی کم ریٹ میں ڈالر مل جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں کابل میں بہت زیادہ نفع پر ڈالر کی ڈیمانڈ ہے۔ظفر پراچہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ پشاور میں کراچی اور لاہور کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت زیادہ ہے۔اگرچہ وہ 175 روپے فی ڈالر کی قیمت سے اتفاق نہیں کرتے تاہم انھوں نے کہا کہ اگر کراچی میں ڈالر 170 روپے کا مل رہا ہے تو پشاور میں یہ 172 روپے میں دستیاب ہے۔
پراچہ نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اگر ڈالر کابل میں 178 روپے میں فروخت ہو رہا ہے تو یہ ڈالر کی مزید ا سمگلنگ کا باعث بنے گا۔پراچہ نے کہا یہ بات صحیح ہے کہ ڈالر کی اسمگلنگ کی ایک وجہ افغانستان میں ڈالر کی کمی ہے اور اس کی بنیادی وجہ امریکہ کی جانب سے نئی طالبان حکومت کے ڈالر اکاو¿نٹس کا منجمد کرنا ہے۔ا±نھوں نے بتایا کہ طالبان کی حکومت سے پہلے ہر ہفتے اتحادی افواج کے لیے 50 کروڑ ڈالر آتے تھے جو اخراجات کی مد میں ادا کیے جاتے تھے۔ ڈالروں کی اتنی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے یہ ڈالر پاکستان بھی آ جاتے تھے۔ا±نھوں نے بتایا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے 50 لاکھ سے ایک کروڑ ڈالر افغانستان سے پاکستان آتے تھے تاہم اب صورت حال بدل چکی ہے اور اس کے مقابلے میں اب پاکستان سے روزانہ 10 لاکھ سے 20 لاکھ ڈالر افغانستان ا سمگل ہو رہے ہیں۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کا کہنا ہے کہ اس وقت شرحِ مبادلہ میں سب سے زیادہ عدم توازن تو پاکستان کے درآمدی بل نے پیدا کیا ہے جس میں تسلسل سے اضافہ ہو رہا ہے۔ا±نھوں نے گورنر اسٹیٹ بینک کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کی اسمگلنگ سے شرح مبادلہ پر کم ہی اثر پڑ رہا ہے تاہم افغانستان کی صورتحال اس لحاظ سے شرح مبادلہ پر اثر ڈال رہی ہے کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی درآمدات کی ایک بڑی وجہ افغانستان کی صورتحال بھی ہے۔ا±نھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا پاکستان نے اس برس جولائی کے مہینے میں ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی درآمدات کی تھیں جبکہ اگست کے مہینے میں درآمدات ساڑھے چھ ارب ڈالر تک چلی گئیں جس کی وجہ کھانے پینے کی چیزوں کی درآمدات ہے۔ا±نھوں نے بتایا کہ ان درآمدات کی ایک بڑی مقدار افغانستان جا رہی ہے یعنی خوردنی چیزوں کی درآمد صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ افغانستان کے لیے بھی ہو رہی ہے کیونکہ وہاں پاکستان کے علاوہ کسی اور راستے سے فی الحال کچھ جا نہیں رہا اور اس کا اثر زیادہ درآمدی چیزوں کی صورت میں پاکستان پر پڑ رہا ہے۔ظفر پراچہ نے اس سلسلے میں کہا کہ طالبان حکومت کے فنڈز تو امریکہ نے منجمد کر لیے ہیں اور عملاً اس وقت افغانستان میں بینکاری کا شعبہ کام نہیں کر رہا، اس لیے اس کا سارا بوجھ پاکستان پر پڑ رہا ہے۔ا±نھوں نے کہا کہ ایک تو افغانستان سے لوگ اپنی جمع پونجی نکالنا چاہتے ہیں اور دوسری جانب ان کی کھانے پینے کی چیزوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے پاکستان پر اضافی درآمدی بل کا بوجھ پڑ رہا ہے۔
