Noor Muqaddam case: Islamabad HC rejects Zakir Jaffar's parents bail applications

اسلام آباد:(اے یو ایس ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور ان کی والدہ عصمت آدم جی پر قتل میں ملزم ظاہر جعفر کی مدد کرنے اور شواہد کو چھپانے کا الزام ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس عامر فاروق نے بدھ کے روز ان درخواستوں پر مختصر فیصلہ س±ناتے ہوئے ضمانت کی ان درخواستوں کو مسترد کر دیا۔عدالت کا کہنا تھا کہ ان درخواستوں کو مسترد کیے جانے کی وجوہات کا ذکر تفصیلی فیصلے میں کیا جائے گا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان درخواستوں پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 23 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے متعقلہ ٹرائل عدالت کو دو ماہ میں نور مقدم کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ اس مقدمے کی تفتیش کرنے والی پولیس کی ٹیم کو اس حوالے سے شواہد جلد از جلد متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق نے جب یہ فیصلہ سنایا تو ملزمان کے وکیل خواجہ حارث اور مدعی مقدمہ کے وکیل بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

ضمانت کے ان درخواستوں کی سماعت کے دوران ملزمان کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جس وقت اس واقعہ کا مقدمہ درج کیا گیا تو اس وقت ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کا نام ایف آئی آر میں درج نہیں تھا جبکہ ایف آئی آر درج ہونے کے کچھ دنوں کے بعد مدعی مقدمہ شوکت مقدم کی درخواست پر ضمنی میں درج کیا گیا۔ضمانت کی ان درخواستوں کی مخالفت کرتے ہوئے مدعی مقدمہ کے وکیل اور سرکاری وکیل کا موقف یہ تھا کہ ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ جس وقت ملزم ظاہر جعفر نور مقدم کو قتل کر رہا تھا اس وقت یہ دونوں ملزمان مرکزی ملزم کے ساتھ رابطے میں تھے اور یہ بات ملزمان کے زیر استعمال موبائل فون کے ریکارڈ سے ثابت ہوتی ہے اور یہ ریکارڈ عدالت میں موجود ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد ملزمان کے وکیل کا کہنا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ ان کے مو¿کل ہی کریں گے۔اس سے قبل اسلام آباد کی مقامی عدالت ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کی ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کر چکی ہے۔ مقامی عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ان دونوں ملزمان کے خلاف ناقابل تردید شواہد موجود ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس وقت ملزم ظاہر جعفر نور مقدم کو قتل کر رہا تھا اس وقت یہ دونوں ملزمان اپنے بیٹے یعنی ظاہر جعفر کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان حالات میں یہ دونوں ملزمان ضمانت کے مستحق نہیں ہیں۔

اسلام آباد کے ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں اس مقدمے کا ٹرائل شروع ہوگا اور عدالت نے ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے چھ اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی پر اعانت مجرمانہ اور شواہد کو مٹانے کا الزام ہے اور ان کے خلاف درج مقدمے میں دیگر دفعات کے ساتھ ساتھ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 109 بھی شامل ہے جو کہ اعانت جرم میں آتی ہے۔پاکستان کی عدالتی تاریخ میں صرف ایک شخص کو اس قانون کے تحت موت کی سزا س±نائی گئی اور وہ شخصیت ملک کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔یہ عدالتی فیصلہ ابھی تک متنازع ہے اور اس عدالتی فیصلے کو کسی مقدمے کی سماعت کے دوران نظیر کے طور پر بھی پیش نہیں کیا جاتا۔نور مقدم قتل کے مقدمے میں پولیس کی ٹیم میں شامل عبدالستار کے مطابق عدالت میں جمع کروائے گئے اس مقدمے کے چالان میں ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کے بارے میں لکھا ہے کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر قتل کے دوران تمام معلومات اپنے والدین کو دیتا رہا اور والدین نے متعقلہ تھانے میں اطلاع دینے کی بجائے ری ہیبیلیٹیشن سینٹر کے لوگوں کو اس کی مدد کرنے اور نور مقدم کی لاش کو ٹھکانے لگانے کا حکم دیا۔پولیس افسر کے مطابق اگر یہ دونوں ملزمان بروقت پولیس کو مطلع کرتے تو نور مقدم کی جان کو بچایا جا سکتا تھا۔