کابل:قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی اور افغانستان کے لیے ایران کے خصوصی ایلچی حسن کاظمی قمی نے کہا ہے کہ افغانستان اور ایران باہمی اقتصادی و سیاسی تعلقات میں توسیع کے لیے کام کر رہے ہیں۔ حسن کاظمی گزشتہ روز ہی کابل پہنچے ہیں اور ان کی سربراہی میں ایک 15 رکنی وفد بھی آیا ہے انہوں نے منگل کے روز امارت اسلامیہ کے عہدیداروں سے ملاقات کی ۔ ملاقات کے دوان نائب وزیراعظم بھی موجود رہے۔ متقی کا کہنا ہے کہ ایرانی وفد میں ملک کی مختلف وزارتوں کے تکنیکی گروپ شامل ہیں اور انہوں نے امارت اسلامیہ کے حکام سے متعلقہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔
متقی کے مطابق اقتصادی، سرحدی اور مہاجرین کے شعبوں میں مختلف ورکنگ گروپس قائم کیے گئے ہیں اور یہ گروپ اپنی بات چیت جاری رکھیں گے۔قائم مقام وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔متقی نے کہا کہ “افغانستان کے عوام اور افغانستان کی نئی حکومت کے تمام ہمسایہ ممالک اور دنیا کے ساتھ اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور وہ مزید بہتر ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔دوسری جانب جناب قمی کا کہنا ہے کہ انہوں نے امارت اسلامیہ کے عہدیداروں سے اقتصادی اور سرحدی تعاون سمیت مختلف امور پر بات چیت کی ہے۔قومی نے کہا کہ ہم نے مختلف شعبوں میں بہت مثبت اور تعمیری بات چیت کی، بشمول دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو کس طرح مضبوط کیا جائے، خاص طور پر اقتصادی شعبوں اور دونوں ممالک کی سرحدوں سے متعلق مسائل ۔
ان کے بقول افغانستان پابندیوں کی زد میں ہے اور انہوں نے پابندیوں کے سائے میں معاشی طور پر تعاون کرنے پر بات کی۔قمی نے مزید کہا کہ متعدد ممالک پراکسی گروپوں کے ذریعے افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور یہ کہ ایران سیکورٹی کے شعبے میں افغانستان کے ساتھ تعاون کے لیے کام کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے، آج افغانستان کے لوگ غیر ملکیوں سے وابستہ دہشت گرد گروپوں کے دباو¿ میں ہیں۔ دوسری جانب امیر خان متقی نے جے نیوز کو بتایا کہ طالبان اور امریکا کے درمیان فوجی دشمنی ختم ہوگئی ہے اور کابل اب واشنگٹن کے ساتھ سفارتی تعلقات چاہتا ہے۔متقی نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کو افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر جاری کرنے چاہئیں اور عالمی برادری کو افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے۔
