The sacrifice of Shri Guru Gobind Singh to protect relligion and the country

بنڈارو دتاریہ
(عزت مآب گورنر ہریانہ)

اتہاس پرش کبھی بھی راج ستا پراپتی، زمین- جائیداد، دولت یا شہرت حاصل کرنے کیلئے لڑائیاں نہیں لڑتے۔ شری گورو گوبند سنگھ جی ایسے اتہاس پرش تھے جنہوں نے تاعمر ناانصافی، ادھرم، ظلم اور جبر کے خلاف جنگ لڑی۔ گورو جی کی تین نسلوں نے ملک – مذہب کی حفاظت کے لئے عظیم قربانیاں دیں۔ آج ملک اپنی آزادی کی 75 ویں سالگرہ ‘آزادی کے امرت مہوتسو’کے طور پر منا رہا ہے۔ ایسے میں پورے ملک میں آزادی پسندوں، شہیدوں، بلیدانیوں کو یاد کیا جا رہا ہے۔سکھوں کے دسویں گورو شری گورو گوبند سنگھ جی کو ان کی جینتی پر نمن کرکے ہر ہندوستانی فخر محسوس کر رہا ہے۔ گورو گوبند سنگھ سکھوں کے دسویں گورو تھے۔ وہ ایک عظیم فلسفی، نامور شاعر، بے خوف اور نڈر یودھا ، جنگی ماہر عظیم مصنف اور سنگیت کے ماہر بھی تھے۔ان کی پیدائش 1666 میں پٹنہ میں ہوئی۔ وہ نویں سکھ گورو ، سری گورو تیغ بہادر اور ماتا گجری جی کے اکلوتے بیٹے تھے، جن کا بچپن کا نام گوبند رائے تھا۔1699 عیسوی میں بیساکھی کے دن گورو گوبند سنگھ نے خالصہ پنتھ کا قیام کرکے پانچ افراد کو امرت چھکا کر ‘پنچ پیارے’ بنادیا۔ ان پانچ پیاروں میں سبھی طبقوں کے لوگ تھے۔ اس طرح سے انہوںنے ذات پات مٹانے کے مقصد سے امرت چھکایا۔ بعد میں انہوں نے خود بھی امرت چھکا اور گوبند رائے سے گوبند سنگھ بن گئے۔

سری گورو گوبند سنگھ جی نے ایک خالصہ وانی ‘ واہے گورو جی کا خالصہ، واہے گورو جی کی فتح ‘،قائم کی۔ ساتھ ہی انہوںنے مثالی زندگی جینے اور خود پر قابو پانے کے لئے خالصہ کے پانچ بنیادی اصولوں کا بھی قیام کیا۔جن میں کیس، کنگھا، کڑا، کچھ اورکرپان شامل ہے۔ یہ اصول کردار نرمان کے را ستے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ انسان کردار سازی کے بعد ہی منفی حالات ومظالم کے خلاف لڑ سکتا ہے۔ گورو گوبند سنگھ جی کی بہادری اور مقبولیت کی وجہ سے آس پاس کے پہاڑی راجہ نفرت کرنے لگے۔یہاں تک کہ بلاس پور کے راجہ بھیم چند سمیت گڑھ وال ،کانگڑہ کے راجاو¿ں نے مغل حکمراں اورنگ زیب کے پاس جاکر گورو گوبند سنگھ کے خلاف لڑنے کیلئے فوجی مدد کی درخواست کی اور کہا کہ اس کے بدلے میں وہ سالانہ جزیہ دیں گے۔بھیم چند کی ماتا چمپا دیوی نے گورو گوبند سنگھ کے خلاف جنگ کی مخالفت کی اورکہا کہ گورو گوبند سنگھ ایک عظیم سنت ہیں، ان کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ انہیں گھر بلا کر عزت دی جانی چاہئے۔اسی طرح جب اورنگزیب کی فوج کا جنرل سید خان جنگ کے لئے آنند پور صاحب جانے لگا تو راستے میں سڈھورا نامی جگہ پر ان کی بہن نسرینہ سے ملے ۔اس کی بہن نے سید خان کو گورو گوبند سنگھ کے خلاف جنگ کرنے سے روکا اور کہا کہ وہ پہلے سے ہی گورو جی کی پیروکار ہیں اور گورو گوبند سنگھ ایک مذہبی اور روحانی سنت ہیں۔

یہاں تک کہ انہوں نے پہلے سے ہی سید خان کی شکست کی پیشین گوئی کر دی تھی۔ نسرینہ خان نے اپنے پتی وبیٹوں کو سری گورو گوبند سنگھ کی فوج میں بھرتی کروادیا تھا۔ سید خان جنگ کے لئے نکل پڑا۔ جنگ کے میدان میں نیلے گھوڑے پر سوار سری گورو گوبند سنگھ جب مغل سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے تو سید خان گورو جی کے سامنے آیا۔تب گورو جی خود گھوڑے سے اترے اور وہ سید خان کو مارنے کے لئے تیار نہیںہوئے۔ سید خان گورو جی کی چمک دمک سے متاثر ہوا اور جنگ کامیدان چھوڑ کر یوگ، دھیان اور شانتی کیہ حصولیابی کے لئے پہاڑوں پر چلا گیا۔ گورو گوبند سنگھ جی کے چار بیٹے تھے جن کا نام صاحبزادہ اجیت سنگھ، صاحبزادہ زورآور سنگھ ، صاحبزادہ جوجھار سنگھ، صاحبزادہ فتح سنگھ تھا۔انہوں نے اپنے چاروں بیٹے مذہب کی حفاظت کیلئے قربان کئے۔ مغل حکمران کے ذریعے دو بیٹے زورآور سنگھ اور فتح سنگھ کو سرہند میں دیوار میں چنوادیاگیا۔دو بیٹے اجیت سنگھ اور جوجھار سنگھ اس جنگ میں ویر گتی کو پراپت ہوئے۔ گورو گوبند سنگھ جی نے اپنے بیٹوں کی شہادت میں کہا تھا۔ ان پترن کے سیس پر، وار دئے ست چارچار موئے تو کیا ہوا، جیوت کئی ہزارگورو گوبند سنگھ جی نے اپنی زندگی میںآنند پور، بھنگانی، نندون، گلیر، نرمو ہ گڑھ، بسولی، چمکور، سرسہ اور مکتسر 14 جنگیں کیں ۔ ان جنگوں میں پہاڑی راجاو¿ں اور مغل صوبیداروں نے ہر بار منہ کی کھائی ۔

گورو گوبند سنگھ جی نے کبھی خود غرضی اور ذاتی مفاد کے لئے لڑائی نہیں لڑی بلکہ انہوںنے اتپیڑن اور ناانصافی کے خلاف لڑائی لڑی۔ اس وجہ سے ہندو اور مسلمان مذہب کے لوگ ان کے پیروکار تھے۔ستمبر 1708میں گورو جی جنوب میں ناندیڑ چلے گئے اور بیراگی لکشمن داس کو امرت چھکا کر اور جنگی مہارتوں کا ماہر بناکر بندہ سنگھ بہادر بنایا اور انہیں خالصہ فوج کا کمانڈر بنا کر سنگھرش کے لئے پنجاب بھیج دیا۔ پنجاب پہنچ کر بندہ سنگھ بہادر نے چپہ چیڑی کی جنگ جیتی۔ اکتوبر 1708 میں مہاراشٹر کے ناندیڑ صاحب میں گورو گوبند سنگھ جی نے اپنی آخری سانس لی۔ اس طرح سے پہلے پتا سری گورو تیغ بہادر صاحب جی، پھر چاروں پتروں نے اور بعد میں سری گورو گوبند سنگھ جی نے خود بلیدان دے کر مذہب کی حفاظت کی۔سوامی وویکانند جی نے گورو گوبند سنگھ جی کو ایک مہان فلسفی، سنت، آتم بلیدانی،تپسوی اور خود نظم و ضبط والا بتا کر ان کی بہادری کی تعریف کی تھی۔

سوامی وویکانند جی نے کہا تھا کہ مغل دور میں جب ہندو اور مسلم دونوں ہی مذہب کے لوگوں پر ظلم ہو رہا تھا تب سری گورو گوبند جی نے ناانصافی اور ظلم کے خلاف ومظلوم عوام کی بھلائی کے لئے قربانی دی تھی جو ایک عظیم قربانی تھی۔ اس طرح سے سری گورو گوبند سنگھ جی مہانوں میں مہان تھے۔گیتا میں کہا ہے کہ کرم کرو، پھل کی فکر نہ کرو’۔ ٹھیک اسی طرح سری گورو گووند سنگھ جی نے کہا ہے، ‘دیہی شوا ور موہے ایہے، شبھ کرمن تے کبہوں نہ ٹروں’یعنی ہم اچھے کاموں سے کبھی پیچھے نہ ہٹیں ، نتائج چاہے جو بھی ہوں۔ان کے ان خیالات سے پتہ چلتا ہے کہ گورو گوبند سنگھ جی نے کرم، سدھانت ، مساوات، برابری ،بے خوفی اور آزادی کا پیغام دے کر سماج کو متحد کرنے کا کام کیا۔انہوں نے کبھی بھی انسانی اور اخلاقی اقدار سے سمجھوتہ نہیں کیا۔آج پھر ضرورت ہے کہ ان کے بتائے راستے پر چل کر ہم سبھی مذہب، سماج اور بھائی چارے کو مضبوط کر کے ایک ہندوستان اور بہترین ہندستان کے لئے کام کریں۔