واشنگٹن:(اے یو ایس ) حال ہی میں کابل میں امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے القاعدہ تنظیم کے سربراہ ایم الظواہری کے خلاف آپریشن کے بارے میں تازہ معلومات سامنے آئی ہیں۔برطانوی اخبار’ٹائمز‘ میں شائع ہونے والی تین ایڈیٹروں کی رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس کو معلوم تھا کہ ایمن الظواہری پاکستان کے شہر کراچی میں مقیم ہیں۔ اس کے بعد امریکی ایجنٹوں کو یہ خبربھی مل گئی کہ الظواہری کا خاندان کابل پہنچ گیا ہے اور انہوں نے کابل میں شیرپور کے مقام پر تین منزلہ کوٹھی میں رہائش اختیار کی ہے۔ پھر پتہ چلا کہ الظواہری کے ارد گرد موجود سپورٹ نیٹ ورک بھی افغان دارالحکومت کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔
برطانوی اخبار کی یہ رپورٹ سینیر امریکی حکام کی مدد سے تیار کی گئی ہے مگر معلومات دینے والے اہلکاروں نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی۔رپورٹ میں ایک سینیر اہلکار نے کہا کہ امریکی حکومت الظواہری کی حمایت کرنے والے نیٹ ورک کے وجود کے بارے میں برسوں سے جانتی تھی اور اس سال ہمیں پتہ چلا کہ اس کا خاندان، اس کی بیوی، بیٹی اور بچے کابل میں ایک محفوظ گھر میں منتقل ہو گئے ہیں۔ جہاں انہیں روایتی انسداد جاسوسی کے طریقے بھی سکھائے گئے۔ وہ ہمیشہ تین منزلہ عمارت کے اندر رہتے تھے۔ جس میں صرف بھروسہ مند لوگوں کو جانے کی اجازت ہوتی تھی۔
یاد رہے کہ یہی طریقہ القاعدہ کے بانی سربراہ مقتول اسامہ بن لادن نے ایبٹ آباد میں اپنے قیام کے دوران اپنایا تھا۔ مگر امریکی جاسوس انہیں تلاش کرتے ان تک پہنچ گئے تھے اور 2011 میں انہیں ہلاک کردیا گیا تھا۔الظواہری کی اہلیہ، بیٹی اور پوتے پوتیوں کی آمد کے ساتھ، امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کو یقین تھا کہ آخر کار الظواہری خود ان کے سامنے آہی جائے گا۔ ہم نے اس کی یقینی موجودگی کے لیے کام کیا اور آخر کار ہمیں معلوم ہوگیا کہ الظواہری کابل میں ہیں۔امریکی حکام کی طرف سے فراہم کردہ معلومات العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطالعے سے بھی گذری ہیں۔رپورٹ میں اہم ترین معلومات کا خلاصہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب اپریل کے اوائل میں سینیر انٹیلی جنس حکام کو الظواہری کی اطلاع ملی تو انہوں نے فوری طور پر صدر بائیڈن کو یہ خبر پہنچا دی تاکہ آپریشن کی منصوبہ بندی شروع کی جائے۔ آپریشن میں الظواہری کو جان سے مارنا ہی طے تھا۔71 سالہ الظواہری کبھی گھر سے باہر نہیں نکلے۔ ان کی بعد کابل میں موجودگی کی حتمی تصدیق اس وقت ہوئی جب وہ بالکونی میں سب کی نظروں میں نمودار ہوئے۔ چنانچہ ایک امریکی اہلکار نے کہاکہ ہم نے الظواہری کو مختلف مواقع پر اور طویل دیر تک بالکونی میں دیکھا۔
چنانچہ اس کا روزانہ سیٹلائٹ امیجز کے ذریعے طرز زندگی کو ہفتوں تک مانیٹر کیا گیا۔سی آئی اے کو گھر کا ایک پیمانے کا ماڈل بنانے کے لیے وقت دیا گیا تھا۔اسے صدر بائیڈن کو پیش کرنے کے لیے کہا گیا تاکہ وہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ آیا ان کے خاندان کے افراد یا قریبی شہریوں کو مارے بغیر اسے پورچ پر نشانہ بنانا محفوظ ہے۔25 جولائی کو اپنی ٹیم کو ایک آخری بار بلانے اور اپنے اعلیٰ مشیروں سے ان کے خیالات پوچھنے کے بعد مسٹر بائیڈن نے اس حملے کی اجازت دے دی۔اگلے چند ہفتوں کے دوران حکام نے وائٹ ہاو¿س کے اہم کمرے میں ملاقات کی یہ وائٹ ہاو¿س کے نیچے قائم کیا گیا ایک بنکر نما کمانڈ سینٹر ہے جہاں صدر اندرون اور بیرون ملک بحرانوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔حکام نے انتہائی محتاط انداز میں اس آپریشن کی منصوبہ بندی کی اور صدر کی جانب سے پوچھے جانے والے کسی بھی ممکنہ سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔دریں اثنا، وکلا کی ایک چھوٹی ٹیم اس حملے کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کے لیے جمع ہوئی اور بالآخر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ القاعدہ میں الظواہری کے قائدانہ کردار اور القاعدہ کے حملوں کے لیے ان کی آپریشنل حمایت کی بنیاد پر ایک جائز ہدف تھا۔
انٹیلی جنس حکام کے مطابق مقامی وقت کے مطابق صبح 6 بجکر 18 منٹ پر ایک ڈرون سے داغے گئے دو ہیل فائر میزائل الظواہری کے مکان کی بالکونی سے ٹکرائے جس کے نتیجے میں القاعدہ کے سربراہ ہلاک ہو گئے۔ اس حملے میں ان کے خاندان کے دوسرے ارکان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔حملے کے بعد مکان کی کھڑکیاں اڑ گئیں مگر حیرت انگیز طور پر کوئی اور نقصان نظر نہیں آیا۔اس حملے کم معروف ہیل فائر میزائل استعمال کیا گیا تھا جس میں دھماکہ خیز مواد نہیں ہوتا۔ میزائل کی یہ قسم اے جی ایم -114آر9ایکس کہلاتی ہے اور بارود کی جگہ اس میں چھ بلیڈ لگے ہوتے ہیں جو نشانے پر پہنچتے وقت میزائل کے اطراف سے نکل آتے ہیں۔
