کوئٹہ:(اے یو ایس ) بلوچستان اسمبلی میں حکومت اور حزب اختلاف کے اراکین نے سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں پر تشویش کا اظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وبائی امراض کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہ کیے گئے تو ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ گذشتہ روز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اراکین کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے وہاں وبائی امراض سے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔
حکومتی رکن میر ظہور بلیدی نے کہا کہ نصیرآباد ڈویژن، کچھی اور لسبیلہ میں سب کچھ تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دو سے تین سو ارب روپے کا نقصان ہوا لیکن یہ امر افسوسناک ہے تاحال بلوچستان کو نقصان کے مقابلے میں اتنی امداد فراہم نہیں کی گئی۔انھوں نے کہا کہ لوگ ملیریا اور دیگر بیماریوں سے متاثر ہورہے ہیں۔ ظہور بلیدی نے کہا کہ اگر نصیر آباد، کچھی اور لسبیلہ کی جانب بھرپور توجہ نہ دی گئی تو ان علاقوں میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوں گی۔ادھر حزب اختلاف کے رکن نصراللہ زیرے نے کہا کہ 34 اضلاع میں سے ایک دو کو چھوڑ کر باقی تمام اضلاع تباہی سے دوچار ہیں۔
سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے صحبت پور سے حکومتی رکن سلیم کھوسہ نے کہا کہ پورا ضلع تباہی سے دوچار ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پورے نصیرآباد میں پانی کھڑا ہے جس کی وجہ سے وبائی امراض پھیل رہے ہیں اور اس سے بچوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ وہاں لوگوں کو ملیریا سے بچاو¿کی ادویات نہیں مل رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک حکومت کی جانب سے لوگوں کو جو امداد فراہم کی گئی ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پینے کے پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صحبت پور کی آبادی دو لاکھ بیس ہزار ہے لیکن وہاں صرف دس ٹینکروں کے ذریعے لوگوں کو پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ لوگوں کو اب تک نہ مناسب راشن فراہم کیا گیا اور نہ ہی خیمے فراہم کیے گئے۔انھوں نے صحبت پور اور نصیر آباد ڈویژن کے دیگر اضلاع کے ڈوبنے کی ایک بڑی وجہ ایریگیشن ڈپارٹمنٹ کی ’ناقص کارکردگی‘ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کیا جائے۔مشیر برائے داخلہ و پی ڈی ایم اے میر ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ حکومت کے پاس جو بھی دستیاب وسائل ہیں وہ لوگوں کو ریلیف کی فراہمی کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔
