india should fulfill the wishes of the people of gilgit baltistan

بریگیڈئر کلدیپ سنگھ کاہلوں(ریٹائرڈ)

اندرونی خطروں، تمام طرف سے مصیبتوں سے گھرا اور اقتصادی تنگی کا شکار پڑوسی ملک پاکستان اب بھارت کے آگے گڑگڑا رہا ہے۔پاکستانی پردھان منتری شہباز شریف کا یہ کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ تین جنگوں کے بعد پاکستان اپنا سبق سیکھ چکا ہے۔یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک کے دو ٹکڑے ہونے کے باوجود بھی وہ اپنی گھناﺅنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا ہے اور اس کی ہینکڑے بازی ابھی بھی برقرار ہے۔
اگر شہباز کے ارادے نیک ہوتے تو حال ہی میں سعودی عرب ، کبھی قزاکستان اور متحدہ عرب امارات اور یو این او میں پہنچ کر کشمیر کا راگ نہ الاپا جاتا۔ پھر ایٹمی جنگ کی دھمکی دی جارہی ہے۔نیز دوسری طرف آبو دھابی کے حکمران کو بھارت کے ساتھ ثالثی کی بات بھی کی گئی۔ اس سارے پرسنگ میں سرکاری نقطہ نظر سے پتہ چلتا ہے کہ شہباز شریف بھارت کی موثر لیڈرشپ ، مضبوط اقتصادی صورتحال ، فوجی اور ایٹمی طاقت سے واقف ہے۔
پاکستان سرکارکی دمن کاری اور بھید بھاﺅ پورن پالیسیاں ،بیروز گاری اور مہنگائی سے تنگ لوگوںکے اندر بے چینی کا ماحول ہے۔ قابل ذکر ہے کہ گلگت۔بالتستان کے مقامی لوگوں نے ان کی زمینوں پر ناجائز قبضوں ، خوردنی اشیائ پر سبسڈی کی بحالی ، پاور کٹ اور قدرتی سورسز کے استحصال اور جن آنکڑوں میں تبدیلی جیسے مدعوں کولیکر کئی دنوں پاکستان سرکار کے خلاف زبردست مظاہرہ جاری رکھا ہوا ہے۔
عوامی میٹنگیں اور سوشل میڈیا پر سنتاپ بھوگ رہی عوام کی طر ف سے سرعام بھارت کے لداخ علاقے میں شامل ہونے کی مانگ زور پکڑتی جارہی ہے۔اب جبکہ گلگت۔بالتستان کے شہری بھارت کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں تو پھر ہماری سرکار کو بھی چاہئے کہ ان لوگوں کی امیدوں پر کھرا اترے۔ یہی سنہرہ موقع ہے کہ جب اپنے ٹوٹے انگ کو اپنے ساتھ جوڑا جائے، لیکن ایسا کیسے اور کیوں ہو۔
اصلی حقدار کون:پاکستان کے شمال میں پڑتے ناجائز قبضے والے 72,791 مربع کلومیٹر رقبہ کے اندر گلگت ایجنسی ، لداخ انتظامیہ کا ضلع بالتستان اور پہاڑی ریاستیںہنجا اور نگر کو ملا کر اس کا نام گلگت۔ بالتستان رکھا گیا ہے۔اس کو 14اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس کی کل آبادی پچھلی مردم شماری کے مطابق 12.5 لاکھ کے قریب ہے۔ شمال کی طرف اس کی سرحد افغانستان اور شمال۔ مشرق کی طرف اس کی سرحد چین کے مت کے مطابق خود مختار راجیہ شن جیانگ کے ساتھ لگتی ہے۔
مغرب کی طرف پاکستان کا شورش زدہ شمال۔ مغربی فرنٹیئر خطہ پڑتا ہے۔ اس کے جنوب میں پاک مقبوضہ کشمیر اور جنوبی مشرق کی طرف جموں۔ کشمیر کی سرحد لگتی ہے۔
گلگت۔ بالتستان دہلی سلطنت کا حصہ تھا۔16 ویں صدی میں یہ مغل سمراٹ سلطنت میں چلا گیا۔ 1757 میں ایک اقرارنامہ کے تحت اس شمالی ایریا کا اختیاری حق مغلوں سے احمد شاہ درانی نے لے لیا اور یہ افغانستان کا حصہ بن گیا۔1819 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے افغانستانیوںکے اوپر حملہ کرکے اس علاقے کو اپنے ماتحت کرلیا۔ جب 1935 میں روس نے کشمیر سے متصل شن جیانگ کے اوپر جیت حاصل کی اور پھر یہ علاقہ برطانیہ کیلئے خاص اہمیت والا ہو گیا۔
درحقیقت 1846 کے آس پاس اس حصے نے بھی جموں۔ کشمیر شہنشائی ریاست کا درجہ حال کیا۔ برطانوی سرکار نے گلگت کے خطہ کو جموں۔ کشمیرکے راجہ کے پاس سے 60 سالوں کیلئے پٹے پر لے لیا جو سال 1995 میں ختم ہونا تھا۔
اس سرحدی خطے کی نگرانی کیلئے برطانیہ نے گلگت سکاﺅٹ کا نرمان کیا۔ جس میں صرف انگریز افسر ہی تھے اور اس کا انتظامی قبضہ کرنل بکن کے سپرد کیا گیاتھا۔
جولائی1947 میں برطانوی۔ بھارتیہ سرکار کے وقت سے پہلے معاہدے کو رد کرکے یہ علاقہ واپس جموں۔ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے سپرد کردیا گیا۔ یکم اگست 1947 کو ڈوگرہ حکومت کی ریاست کی فوج میں بریگیڈئر گھنسارا سنگھ کو گلگت۔ بالتستان میں گورنر مقرر کیا گیا۔باقی کی ریاستوںکے جیسے ہی جموں۔کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھی بھارت میں شامل ہونے کیلئے سمجھوتہ کیا۔ جس کی تصدیق گورنر جنرل آف انڈیا لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے 27 اکتوبرکو کی۔ اس طرح جموں۔ کشمیر گلگت۔ بالتستان سمیت بھارت کا ا ٹوٹ انگ بن گیا۔
kahlonks@gmail.com