Is India seeing a decline in violence?

سوتک بسواس
سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر بشریات تھامس بلام ہینسن نے دو سال پہلے دلیل دی تھی کہ تشدد بھارتیہ عوامی زندگی کے مرکز میں چلا گیا ہے۔انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیوں عام بھارتیہ یا تو عوامی تشدد میں خاموشی اختیار کرلیتے ہیںیا فعال طور پر اس میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ترقی ایک گہرے مسئلے اور بگاڑ کی نشاندہی کرتی ہے جس سے جمہوریت کے مستقبل کو خطرہ ہو سکتا ہے۔پروفیسر ہینسین نے یہ اپنے 2021 کی کتاب ‘دی لا آف فورس : دی وائیلنٹ ہارٹ آف انڈین پالیٹکس’ میں ایسا لکھا ہے۔
امریکہ کے دوماہر سیاسیات سائنسداں امت آہوجہ اور دیویش کپور اپنی الگ رائے رکھتے ہے۔ اپنی آنے والی کتاب ‘بھارت میں خلائی سکیورٹی: سسٹم اور سٹیٹ’ میں وہ دلیل دیتے ہیں کہ ملک میں بڑے پیمانے پر تشدد میں گراوٹ آئی ہے۔
اس صدی کی پہلی دو دہائیوں میں تشدد میں کمی دیکھی گئی ہے۔ اپنی تحقیق کیلئے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر آہوجہ اور جانس ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر کپور نے بھا رت میں عوامی زندگی میں تشدد کے مجرمانہ ریکارڈز کو کھنگالا ہے۔انہوں نے دنگوں سے لے کر انتخابی تشدد، ذات پات سے لے کر مذہبی اور نسلی تشدد، عسکریت پسندی سے لے کر دہشت گردی اور اغوا تک کے سیاسی قتل پر تحقیق کی ہے۔
انہوں نے پایا کہ 1970کی دہائی کے اواخر سے لیکر2000کی دہائی کے اوائل تک ‘ پیک کوارٹر سینچری’کے دوران بھارت میں تشدد میں حقیقت میںان میں سے بہت سے اشاروں میں گراوٹ آئی ہے۔ یہ گراوٹ کچھ حد تک کافی معاملوں میں زیادہ دیکھنے کو ملی۔چونکا والے نتائج 2002 کے بعد بھارت نے گجرات دنگوں کے پیمانے پر کسی بھی جاتیہ ، مذہبی قتل کا تجربہ نہیں کیاہے۔ 1984 میں دہلی میں سکھ برادری کو نشانہ بنانے والے دنگے یا 1983 میں اسم کے ایک چھوٹے سے شہر نیلی میں بنگلہ دیش سے مبینہ طور پر غیر قانونی اپرواسیوں کا قتل۔
اکیلے ان دنگوں میں 6000 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ لیکن 2013 میں مظفر نگر شہر میں اور 2020 میں دہلی میں ہندو -مسلم دنگوں میں 90 سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئیں۔گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2020کے مطابق 2001 سے بھارت میں دہشت گردانہ حملوں میں 8749 افرادمارے گئے تھے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ 2010 کے بعد سے ایسے حملوں میں کمی آئی ہے۔
2000سے لیکر 2010تک کشمیر کو چھوڑ کر دہشت گردی کے واقعات کی تعداد میں 70 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔ یہ تعداد 71 سے 21رہی۔بھارت کی تقسیم کے دوران ہوئے مذہبی تشدد میں ایک ملین سے زیادہ لوگوں کی جان لے لی اور اندازے کے مطابق 10ملین لوگوں کوہجرت کرنی پڑی۔ 1970 کی دہائی کے آخر سے لے کر 2002 تک جب گجرات دنگے ہوئے تو ہندو- مسلم تشدد تقریباً ایک چوتھائی صدی تک کیلئے خاص طور پر مہلک رہا۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تب سے نسبتاً مستحکم ہے۔
2017 اور 2021کے درمیان ملک میں مذہبی دنگوں کے 2900سے زیادہ معاملے درج کئے گئے۔ یہ بات سرکار نے دسمبر میں پارلیمنٹ کو بتائی ۔1970 کی دہائی سے صدی کے آخر تک پچھلی مدت کے مقابلے میں دنگوں میں تقریباً 5 گنا اضافہ ہواتھا۔ 1990 کی دہائی کے آخر تک اس میں گراوٹ شروع ہوئی اور-2017 2009 کے درمیان اس میں تیزی دیکھی گئی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق آبادی کے حساب سے معمول کے مطابق آج بھارت میں دنگے تاریخی طور پر کم ہیں۔
انتخابی تشدد اور ہائی پروفائل سیاسی قتل میں کمی آئی ہے۔ 2 پردھان منتریوں اندرا گاندھی اور ان کے بیٹے راجیو کی بالترتیب 1984اور 1991 میں ہتیا کر دی گئی تھی ۔
1989 اور 2019کے درمیان پولنگ سٹیشنوں پر تشدد میں ایک چوتھائی کی کمی آئی اور چناوی تشدد سے ہونے والی اموات میں 70فیصد کی کمی آئی۔ یہ انتخابات کے زیادہ مسابقتی ہونے، ووٹرز کی تعداد بڑھنے اور پولنگ سٹیشنوں کی تعداد میں دوگنا اضافے کے باوجود تھا۔ دنیا بھر کے چلن کی وجہ سے گزشتہ تین دہائیوں میں بھارت میں مانو بدھ میں ہونے والی اموات میں کمی آئی ہے۔ بھارت کی گراوٹ تیز رہی۔ 1990میں فی ایک لاکھ لوگوں پر 5.1 سے 2018 میں 3.1 تک گراوٹ آئی ۔