Blinken stresses countering Iran, affirms need for two-state solution to Netanyahu

واشنگٹن(اے یو ایس)امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے سوموار کو مقبوضہ بیت المقدس کے دورے کے موقع پر فلسطینیوں اوراسرائیلیوں پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لائیں۔انھوں نے پائیدارامن کے لیے تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل کی ضرورت کا اعادہ کیا اور ایران کا مقابلہ کرنے اور اسے جوہری ہتھیارکے حصول سے روکنے کی اہمیت پرزور دیا۔بلینکن نے گذشتہ جمعہ کو مقبوضہ بیت المقدس میں ایک یہودی عبادت گاہ کے باہرحملے کی مذمت کی جس میں سات اسرائیلی ہلاک ہوگئے تھے۔انھوں نے تل ابیب میں آمدپرنامہ نگاروں کو بتایا کہ”یہ افراد پر حملے سے زیادہ تھا۔ یہ اپنے عقیدے پرعمل کرنے کے عالمگیرعمل پر بھی حملہ تھا۔ ہم اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں“۔انھوں نے مزید کہا:”ہم ان تمام لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جو اس واقعہ یادہشت گردی کی کسی بھی ایسی کارروائی کا جشن مناتے ہیں جس میں بے گناہ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ متاثرہ کون ہے یا وہ کیا یقین رکھتے ہیں۔بے گناہ متاثرین کے خلاف انتقامی کارروائی کا مطالبہ اس کا جواب نہیں“۔انھوں نے دونوں فریقوں کے درمیان تناو¿کوکم کرنے پر بھی زوردیا:”یہ ہرایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشیدگی کوبڑھاوا دینے کے بجائے انھیں پرسکون کرنے کے لیے اقدامات کرے“۔نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ نیوزکانفرنس میں بلینکن نے متعدد موضوعات پر بات کی: ایرانی خطرہ، اسرائیل کی سلامتی کے لیےامریکاکا پختہ عزم، دو ریاستی حل کے وڑن کو حقیقت کا روپ دینے کی اہمیت کے ساتھ ساتھ ابراہیم معاہدے کی اہمیت اور ان کو وسعت دینے کے منصوبے کے بارے میں اظہارخیال کیا۔

بلینکن نے اس بات پر زوردیا کہ امریکی حکومت یہ چاہتی ہے،فلسطینیوں اوراسرائیلیوں کو آزادی، سلامتی،انصاف اور وقار کے مساوی مواقع حاصل ہوں۔انھوں نے مزید کہا:”ہم اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ تنازع کے حل کا بہترین طریقہ دو ریاستوں کے وڑن کو محفوظ کرنا اورپھر اسے عملی جامہ پہنانا ہے۔ جیسا کہ میں نے وزیراعظم سے کہا کہ جو کچھ بھی ہمیں اس نظریے سے دورکرتا ہے وہ ہمارے خیال میں اسرائیل کی طویل مدت کی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے“۔”یہی وجہ ہے کہ ہم تمام فریقوں پرزوردے رہے ہیں کہ وہ امن بحال کرنے اورکشیدگی کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ایک ایسا ماحول ہو جس میں ہم اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے یکساں طور پرتحفظ کے احساس کو بحال کرنے کے لیے حالات پیدا کر سکیں جس کی اس وقت یقیناً شدید کمی ہے“۔ان کا مزید کہنا تھا۔نیتن یاہو نےمشترکہ پریس کانفرنس میں ایران کا مقابلہ کرنے اوراسے جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کی اہمیت پرزور دیا۔انھوں نے کہا:”آپ کا دورہ ایک اہم وقت پرہورہاہے۔ یہ ایک ایسا وقت ہے جب بین الاقوامی برادری میں بہت سے لوگوں نے ،اور میں یہ کہوں گا کہ زیادہ تر بین الاقوامی برادری نے ایران کا حقیقی چہرہ دیکھ لیا ہے۔ اپنے ہی لوگوں کے خلاف اس حکومت کی بربریت دیکھی ہے۔انھوں نے دیکھا ہے کہ کس طرح وہ اپنی سرحد سے باہر اورمشرقِ اوسط سے باہر جارحیت برآمد کرتا ہے۔میرے خیال میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس حکومت کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے چاہییں۔انھوں نے مزیدکہا:”ہم نے ایک مشترکہ پالیسی تشکیل دینے، خطرے سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کی کوشش کرنے پر بہت اچھی بات چیت کی ہے۔ہماری بلکہ میری پالیسی یہ ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے اوران کی تیاری کے ذرائع کو روکنے کے لیے اسرائیل کے اختیار میں سب کچھ کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اور امریکامل کر کام کر رہے ہیں جو اس مشترکہ مقصد کے لیے بھی اہم ہے“۔

بلینکن نے نیتن یاہو کے ساتھ خطے میں ایران کی ضرررساں سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کی اہمیت سے اتفاق کیا۔اس کے علاوہ انھوں نے یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیارمہیا کرنے پر ایران کی مذمت کی۔انھوں نے کہا کہ ”ہم اس بات پرمتفق ہیں کہ ایران کو کبھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاناچاہیےاورہم نے خطے اور اس سے باہر ایران کی تخریبی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کےلیےتعاون کو گہرا کرنے پرتبادلہ خیال کیا ہے۔ جس طرح ایران طویل عرصے سے اسرائیلیوں اوردیگر پر حملے کرنے والے دہشت گردوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اسی طرح ایرانی حکومت اب ڈرون مہیا کررہی ہے جو روس بے گناہ یوکرینی شہریوں کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔اس کے بدلے میں روس ایران کو جدید ترین ہتھیارمہیا کررہا ہے۔یہ دو طرفہ شاہراہ ہے“۔بلینکن اور نیتن یاہو دونوں نے معاہدہ ابراہیم اور خطے میں اسرائیل کے”انضمام“ اور عرب ممالک کے ساتھ پلوں کی تعمیر کی تعریف کی۔متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے 2020 میں امریکاکی ثالثی میں ابراہیم معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس کے تحت اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات استوارکیے تھے۔نیتن یاہو نے کہا:”ہم امن کے دائرے کو وسعت دینے کا ایک موقع بھی دیکھتے ہیں۔ ہم ابراہیم معاہدوں کے ذریعے پہلے ہی قائم کیے گئے امن کو مزید گہرا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم نے کچھ اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جو ہم مل کر کرنے پرغورکررہے ہیں۔ اس سے شاید ڈرامائی کامیابیاں حاصل کی جائیں جو میرے خیال میں دنیا کے اس حصے اوراس سے باہر خوش حالی، سلامتی اور امن لانے کی ہماری مشترکہ کوششوں میں تاریخی اور انتہائی اہم ثابت ہوسکتی ہیں“۔ان کا کہنا تھا کہ ”مجھے یہ بھی یقین ہے،امن کے دائرے کو وسعت دینے، بالآخرعرب اسرائیل تنازع کی فائل کوبند کرنے کے لیے کام کرنے سے ہمیں اپنے فلسطینی ہمسایوں کے ساتھ قابل عمل حل حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی“۔

بلینکن نے کہا:”اسرائیل کو زیادہ محفوظ بنانے کا سب سے مو¿ثرطریقہ یہ ہے کہ وہ خطے میں اور یہاں تک کہ خطے سے باہر بھی پلوں کی تعمیر جاری رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ابراہیم معاہدوں اور اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان معمول کے تعلقات استوار کرنے کے لیے دیگر معاہدوں کو گہرا اور وسیع کرنے کے لیے انتھک کام کیا ہے“۔انھوں نے مزید کہا:”وزیر اعظم نے ایک ساتھ بڑے کام کرنے کی ہماری صلاحیت کے بارے میں بات کی ہے۔ ٹھیک ہے، خطے میں اسرائیل کا زیادہ سے زیادہ انضمام ان میں سے ایک ہے۔چند سال پہلے، اس طرح کے تعاون کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔آج یہ حقیقی طورپرشریک ممالک کے لوگوں کے لیے رابطہ قائم کرنے اورتعاون کرنے کے نئے مواقع کو فروغ دے رہا ہے۔ان میں سے ہر بات چیت پائیدار تعصبات اور عدم اعتماد کو دور کرنے میں مدد کرتی ہے“۔انھوں نے کہاکہ ہم نئے مسائل اورنئے ممالک کے ساتھ اس پیش رفت کو جاری رکھنےکے لیے پرعزم ہیں کیونکہ ہم امن کے دائرے کو مضبوط بنانے کے لیے کام کررہے ہیں۔تاہم امریکی وزیرخارجہ نے اس بات پرزور دیا کہ ”عرب ممالک اوراسرائیل کے درمیان معمول کے تعلقات استوارکرنے کے معاہدے دو ریاستی حل کا متبادل نہیں ہیں۔یہ کوششیں اسرائیلیوں اورفلسطینیوں کے درمیان امن کے لیے پیش رفت کا متبادل نہیں ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہم اسرائیل کے انضمام کو آگے بڑھا رہے ہیں، ہم ایسا ان طریقوں سے کرسکتے ہیں جن سے مغربی کنارے اورغزہ میں فلسطینیوں کی روزمرہ کی زندگیوں میں بہتری آئے۔اوریہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو آزادی، سلامتی، مواقع،انصاف اور وقار کے مساوی اقدامات سے لطف اندوزکرنے کے ہمارے پائیدارمقصد کی طرف بڑھنے کے لیے اہم ہے“۔