former justice shaukat aziz siddiqui blames military judiciary nexus for current fiasco

اسلام آباد (اے یو ایس )سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے یہ انکشاف کیا کہ عدلیہ اور فوج کے درمیان گٹھ جوڑ ہے اور ا سکی وجہ سے ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہے ۔ عدلیہ میں انتی ہمت نہیں ہے کہ وہ فوج کے خلاف کوئی کارروائی کرسکے۔ اور اس نے ہمیشہ پاکستانی فوج کے غلط کامو ںکو تحفظ فراہم کیا ہے۔ پچھلے سال تک بہت سارے کیسوں میں جج آزادانہ طو رپر فیصلہ لے رہے تھے لیکن اب یہ دیکھائی دے رہا ہے کہ فوج بھی عدلیہ کے دباﺅ میں ہیں۔ لیکن ساتھ ہی انیوں نے یہ بھی کہا کہ جب سے جنرل عاصم منیر نے فوجی سربراہ کا عہدہ سنبھالا اس کے بعد یہ بات سامنے نہیں آئی کہ فوج نے کسی چیز میں مداخلت کی ہے۔

حکومت سازی اور ریاست کے معاملات میں عدلیہ کب سے اپنا کردار ادا کررہی ہے؟ اس سوال پر شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ایوب خان سے جسٹس منیر اور پھر جنرل قمر جاوید باجوہ سے ثاقب نثار تک یہ چیزیں چلتی آرہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ فوج، عدلیہ اور انتظامیہ کا پاکستان بنانے میں کوئی کردار نہیں۔ 14 اگست 1947تک یہ سب لوگ انگریزوں کی ملازمت کررہے تھے۔ اس وجہ سے انہیں اس ملک کے آئین کا احساس نہیں۔ ان کے بقول ہمیشہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے مل کر حکومتوں کو ٹف ٹائم دیا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا مرحلہ آیا ہو جب حکومتی معاملات میں مداخلت نہ کی گئی ہو۔واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے 2018 میں شوکت عزیز صدیقی کو بطور جج اسلام آباد ہائی کورٹ برطرف کر دیا تھا۔

ان کے خلاف اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنے کا ریفرنس دائر ہوا تھا۔شوکت عزیز صدیقی نے اس سے قبل راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔ ان کی برطرفی کا معاملہ اب بھی سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے ساتھ ملاقاتوں کے بارے میں شوکت عزیز صدیقی نےبتایا کہ جنرل فیض سے ان کی دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ان کے بقول، “میں جب سرکاری رہائش گاہ میں رہ رہا تھا تو وہ میرے گھر آئے تھے، اس وقت جتنے بھی معاملات چل رہے تھے ان میں ہمارے ادارے کے بڑے اور فوج کے بڑے اس وقت یک جان دو قالب بنے ہوئے تھے۔لہذا اس وقت میں نے جو کچھ کہا اس پر میری کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔”شوکت عزیز صدیقی کے مطابق انہوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس انور کاسی سے جب بات کی تو انہوں نے کہا کہ “جو وہ کہتے ہیں کرتے جائیں، چھوڑیں ان کے ساتھ (اختلاف کرنا) مناسب نہیں”۔