Ego of political parties is dividing Pakistan?

اسلام آباد(اے یو ایس ) پاکستان اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور ملک کی سےاسی ،سےکورٹی اور اقتصادی صورتحال اتنی سنگےن نہےں ہے جتنی اب ہے۔ ایک طرف ملک شدید مالی مسائل سے دوچار ہے تو دوسری طرف سیاست دانوں اور اداروں میں اختیارات کی رسہ کشی جاری ہے کہ کون پاکستان کو چلائے گا۔روزانہ کی بنیاد پر ٹی وی چینلوں پر چلنے والے مباحثے، سخت الٹی میٹم اور متعدد احتجاجی ریلیوں اور جلوسوں کے باوجود پاکستان آج بھی ایک سال قبل پیدا ہونے والے سوال کا جواب دینے سے قاصر نظر آتا ہے۔ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں ’جو چیز اس موجودہ صورتحال کو بے مثال بناتی ہے وہ دیگر سنگین بحرانوں کی موجودگی ہے۔‘پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر، جو ایندھن سمیت دیگر درآمدات کی ادائیگی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، کئی دہائیوں میں سب سے کم سطح پر گر چکے ہیں۔ اس سال کے شروع میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، آئی ایم ایف، کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں 1.1 ارب ڈالرز کی قسط ملنے کا معاہدہ ہونا ابھی باقی ہے۔جبکہ دوسری جانب عسکریت پسند سکیورٹی فورسز پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان کی مسلح افواج نے حال ہی میں کہا ہے کہ رواں برس کے دوران اب تک 436 دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔ اس نوعیت کے حملوں کے بعد عسکریت پسند گروپ باقاعدگی سے انفوگرافکس جاری کرتے ہیں جن میں ان حملوں کی تعداد، سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو ہلاک یا زخمی کرنے اور ملک بھر میں کارروائی کے دوران اسلحہ قبضے میں لینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔اور ایسے میں سونے ہر سہاگہ ملک میں اشیا خردو نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اب تک گذشتہ برس آنے والے تباہ کن سیلاب کے اثرات سے نہیں نکل سکا ہے اور اس سال پھر سے بے موسمی بارشوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایسے میں سیاستدانوں سے پوچھے جانے والے سوالات کی کوئی کمی نہیں ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کا آغاز گذشتہ برس اپریل میں عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کیے جانے کے بعد سے ہوا۔عمران خان نے اس کا جواب ملک بھر میں ریلیاں نکال کر اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کر کے دیا۔عمران خان کے خلاف حکومت کی جانب سے قائم کردہ عدالتی مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت، کرپشن اور دہشتگردی کے دفعات کے تحت ایک سو سے زیادہ مقدمات بنائے گئے ہیں۔لیکن سابق وزیر اعظم نے حکومت کے ان مقدمات کا جواب اپنی سیاسی مہم کے ذریعے دیا ہے اور حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ’ملک میں جنگل کا قانون بنا رکھا ہے۔‘جبکہ حکومتی وزرا اس کے جواب میں عمران خان پر ’انا‘ اور ’خود پسندی‘ سے کام لینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

عمران خان کی جانب سے عدالت میں متعدد مرتبہ پیش نہ ہونے پر اسلام آباد پولیس دو مرتبہ انھیں لاہور میں ان کی رہائشگاہ سے گرفتار کرنے کے لیے پہنچی تھی۔عمران خان نے بھی حکومت کو عدالت میں گھسیٹا ہے۔ ان کی پارٹی نے دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے ملک میں عام انتخابات کروانے کی کوشش کی ہے اور جب اس میں انھیں ناکامی ہوئی تو انھوں نے اس بارے میں ملک کی سپریم کورٹ میں مقدمہ کر دیا جو اس وقت زیر سماعت ہے۔اس عدالتی رسہ کشی نے عدلیہ کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ حکومت کا الزام ہےکہ عدلیہ کے چند ججز عمران خان کی حمایت میں ہیں اور اس تقسیم اور سخت اختلاف سے ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ اس محاذ آرائی کا تعلق عمران خان کی ذات سے ہے کیونکہ ’وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔‘احمد بلال کا کہنا ہے کہ عمران خان کی طرف سے سمجھوتہ نہ کرنا بے سود ہے اور طویل المدت میں انھیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔پاکستان کی فوج اور انٹیلیجنس ایجنسی کے لیے اکثر اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان کی فوج نے ہمیشہ ملکی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ کبھی فوجی بغاوت کر کے ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا تو کبھی پس پردہ بیٹھ کر ڈوریں ہلائیں۔بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کی الیکشن میں کامیابی فوج کی مدد سے ممکن ہوئی تھی۔ اب جبکہ وہ حزب اختلاف میں ہیں تو وہ ک±ھل کر فوج کے ناقد ہے اور اس سے فوج کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔