شاہد ندیم احمد (پاکستان)
حکمران اتحاد سیاسی بحران کی پیچیدگیوں پر قابو پانے کی خاطر پارلیمنٹ کے ذریعے قانونی اصلاحات لانے کی کوشش میں عدالتی فعالیت سے الجھ رہی ہے ،موجودہ آئینی بحران مسلم لیگ( نواز) کے لیے نیا نہیں ہے اس نے ہر دور میں عدالتی فعالیت کے خلاف خاموش مزاحمت جاری رکھی ہے ،لیکن اس بار پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ( پی ڈی ایم )کے پلیٹ فارم سے عدالتی فعالیت کو کند بنانے کی جارحانہ مشق میں سر گرداں نظر آتی ہے ،اس ٹکراﺅ کی سیاست میںمسلم لیگ (ن) کچھ حاصل کر پائے گی ،اس کا پتا نہیں، ،لیکن جمہوریت جاتی ضرور نظر آرہی ہے ۔حکمران اتحاد کچھ بھی ہوجائے اقتدار چھوڑنا چاہتے ہیں نہ انتخابا ت کروانا چاہتے ہیں،تاہم عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آچکا ہے، اس کے تحت الیکشن کمیشن کو 14مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے جس دن ناکام مذاکرات کی رپورٹ کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو کرانے کی درخواست دائر کی گئی اسی روز الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے حکم پر نظرثانی کی درخواست بھی دائر کردی ۔الیکشن کمیشن نے بھی اپنی استدعا میں کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔
دوری جانب حکومت کی طرف سے بھی یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ دونوں کے درمیان مذاکرات عدالت عظمیٰ کے دباﺅ پر ہوئے ہیں۔ حکومت نے فیصلہ کررکھاہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔ اس کے بعد ہی انتخابات ہوں گے اور قومی اسمبلی کے انتخابات سے قبل صوبائی اسمبلی کے انتخابات نہیں کرائے جائیں گے۔یہ موقف الیکشن کمیشن نے بھی اپنی درخواست میں اختیار کیا ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابات سے پہلے منتخب صوبائی اسمبلیوں کی موجودگی کی وجہ سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات ہوں گے،حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں ہی مل کر انتخابات نہ کروانے کا تہیہ کر چکے ہیں ۔اس لیے ببانگ دہل مختلف تو جہات کے ذریعے عدلیہ کی حکم عدولی کی جارہی ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو اپنے سامنے رکھیں تو سبق ملتا ہے کہ سیاسی تنازعات کے فیصلے عدلیہ میں جائیں گے تو عدلیہ بھی سیاسی گندگی میں لتھڑے گی۔ اتحادی قیادت جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ کو متنازعہ بناجارہاہے اور اپنے مفادات کیلئے پارلیمنٹ کا سہارا لیا جارہا ہے۔آئین کے تحت پارلیمنٹ کو قانون ساز ادارہ ہونے کی حیثیت سے تمام اداروں پر فوقیت حاصل ہے، لیکن پارلیمنٹ منتخب سیاست دانوں سے بنتی ہے۔اگر پارلیمنٹ ہی نہ مکمل اور اس کی ساکھ ہی بر قرار نہ رہے تو پارلیمنٹ کی بالادستی کے دعوے کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں رہتے ہیں۔اتحادی حکومت ایک طرف عدلیہ کے فیصلے پر عمل نہ کرتے ہوئے آئین و قانون کی خلاف ورزی کررہی ہے تو دوسری جانب پارلیمنٹ کا سہارا لیتے ہوئے عدلیہ کو للکار رہی ہے ،یہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کا ٹکراﺅ ایک ایسا بحران لائے گا کہ جس کے سامنے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔
اس وقت ملک جس آئینی، سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار ہے اس سے نکالنے کے لیے سیاست دانوں کو محاذ آرائی اور ٹکراﺅ کی سیاست کے بجائے مذاکرات اور افہام و تفہیم سے ہی قابل قبول حل نکالنا ہو گا۔حکومت اور اپوزیشن میںمذاکرات کے تین دور ہو چکے مگر یہ مذاکرات بے معنی رہے ہیں۔ ایک بار پھر سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بے معنی کے بجائے بامعنی مذاکرات کرنا ہوںگے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن اپنے فیصلے خود کر نے کے بجائے دوسروں کی جانب دیکھتے رہے تو نہ تو مذاکرات کا میاب ہوں گے نہ ہی ملک وعوام بحرانی دور سے باہر نکل پائیں گے۔ موجودہ ہیجانی کیفیت اور سیاسی بحران سے نکالنے کا واحد راستہ فوری عام انتخابات ہیں۔ لیکن اس کا ادارک کرتے ہوئے حکمران قیادت تدبر اور بصیرت کا مظاہرہ کریں اس کی اتحادی قیادت سے توقع رکھنا عبث ہے۔ ان کی نظر بہت محدود اور اپنے شخصی، گروہی اور طبقاتی مفاد پر ہی رہتی ہے۔اس ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف جس کے پاس ڈنڈا اس کا زور ہے خواہ ملک و قوم تباہ ہی کیوں نہ ہوتی رہے۔ایک ایسے وقت میں، جبکہ پاکستان انتہائی مشکلات میں گھرا نظر آرہا ہے ہمیں اپنے عام رو یہ میں تحمل، برداشت، رواداری اور لچک کے پہلوﺅں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔سیاسی قیادت کے ساتھ اداروں کو بھی تناﺅ کے تاثر سے گریز کرتے ہوئے باہمی مشاورت کا ایسا ہی طریقہ اختیار کرنا ہو گاکہ جس میں بالادستی صرف آئین وقانون کو ہی حاصل رہے اور سب مل کر اس امر کو یقینی بنائیں کہ آئین کی روح اور الفاظ کے مطابق پاسداری کی جائے۔ پاکستان کا متفقہ آئین قوم کو ایک لڑی میں پرونے والی دستاویز ہے، اس کی حفاظت اور پاسداری ہر سطح پر یقینی بنائی جانی چاہئے۔اگر آئین و قانونی کی پاسداری کی مالا جپنے والوں نے ہی خلاف ورزی جاری رکھی تو کچھ بچے گا نہ ہی کسی کے ہاتھ کچھ آئے گا ۔سب ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
