اسلام آباد(اے یو ایس )سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات پر الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے دلائل جاری ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ بتائیں 90 دن کی نگران حکومت ساڑھے چار سال کیسے رہ سکتی ہے؟ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیے کہ پنجاب اور کے پی کے دونوں صوبوں میں ہی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں۔جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا پنجاب انتحابات کا فیصلہ چیلنج ہوا تھا اور سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا جس پر آپ نظر ثانی پر دلائل دے رہے ہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں کے پی کے کا اسمبلی بھی تحلیل ہوئی تھی۔الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا ہے کہ میرے کہنے کا مطلب تھا کے پی کے اور پنجاب پورے ملک کا ستر فیصد ہیں۔جس پر جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر بلوچستان اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل ہو تو کیا اس پر آئین کا اطلاق نہیں ہو گا؟ انھوں نے ریمارکس دیے کہ نشستیں جتنی بھی ہوں ہر اسمبلی کی اہمیت برابر ہے اور حکومت جو بھی ہو شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس منیب اختر نے مزید ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن کہہ سکتا منتخب حکومت کے ہوتے ہوئے الیکشن نہیں ہوں گے؟اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات سے معذوری ظاہر نہیں کر سکتا۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن تو کہتا تھا فنڈز اور سیکیورٹی دیں تو انتخابات کروا دیں گے۔آئین کے اصول کی بات کر کے خود اس سے بھاگ رہے ہیں۔وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ آٹھ اکتوبر کی تاریخ حقائق کے مطابق دی تھی۔جس پر جسٹس مینب اختر نے سوال کیا کہ آٹھ ستمبر کو الیکشن کمیشن مجھے کہے کہ اکتوبر میں الیکشن ممکن نہیں تو کیا ہوگا؟الیکشن کمیشن دو سال کہتا رہے گا کہ انتخابات ممکن نہیں۔جسٹس منیب اختر کا مزید کہنا تھا کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا فرض ہے، صوابدید نہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے خود کہا آئین کی روح جمہوریت ہے، کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے۔چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ تاریخ میں کئی مرتبہ جمہوریت قربان کی گئی، جب بھی جمہوریت کی قربانی دی گئی کئی سال نتایج بھگتے۔ عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملنا چاہیے۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں صرف وسائل نہ ہونے کا ذکر تھا، الیکشن کمیشن کب کہے گا کہ اب بہت ہو گیا، انتخابات ہر صورت ہوں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب الیکشن کمیشن سیاسی بات کر رہا ہے، بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آوٹ ساٹھ فیصد تھا، سیکیورٹی خدشات کے باوجود بلوچستان کے عوام نے ووٹ ڈالا۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ جب آپ تاخیر کریں گے تو منفی قوتیں حرکت میں آ جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم آئین کے محافظ ہیں اور ہمیں ہر صورت اس کا دفاع کرنا ہے۔
