اسلام آباد(اے یو ایس ) پاکستان میں نو مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کا معاملہ اور قومی اسمبلی سے اس کی توثیق پاکستان میں موضوعِ بحث ہے۔بعض ماہرین کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی سے اس فیصلے کی منظوری کی کوئی قانونی حیثیت نہیں جب کہ بعض حلقے کہتے ہیں کہ اس سے حکومت نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ فوج کے ساتھ ہے۔پارلیمنٹ کے ایوان زیریں سے یہ قرارداد ایسے وقت میں منظور کروائی گئی ہے جب انسانی حقوق کی تنظیمیں، وکلا اور سیاسی رہنما اس اقدام پر تشویش ظاہر کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے سے شفافیت پر سوال اٹھیں گے۔اس سے قبل قومی سلامتی کمیٹی اور وفاقی کابینہ بھی کور کمانڈر کانفرنس کے آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کے فیصلے کی تائید کرچکے ہیں۔
تاہم وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ نو مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لیے کوئی نیا قانون یا ترمیم نہیں لائی جا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حساس دفاعی تنصیات پر حملوں کے چند ایک مقدمات کے علاوہ نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے دیگر تمام مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی اور فوج داری عدالتوں میں ہو گی۔گزشتہ ہفتے آرمی چیف کی زیر قیادت کور کمانڈرز کے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ جو لوگ نو مئی کو فوجی تنصیبات اور اہلکاروں پر حملوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف فوج کے متعلقہ قوانین بشمول آرمی ایکٹ اور سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
انسانی حقوق کے کارکن، بعض سیاسی و سماجی حلقے اور وکلا برادری سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کرنے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔آرمی ایکٹ 1952 میں عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کے لیے محدود گنجائش موجود ہے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بہتر ہوتا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں کے بجائے فوج داری عدالتوں میں چلائے جاتے۔
