لاہور(اے یو ایس )سابق مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کے بھائی مراد اکبر کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے ہیں کہ لوگ پولیس اور رینجرز کی وردیوں میں بندے اٹھا رہے ہیں اور کسی کو پروا ہی نہیں۔
سابق مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کے بھائی مراد اکبر کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئی، جس کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔عدالتی حکم پر ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ،اسسٹنٹ اٹارنی جنرل، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون، لاپتا مراد اکبر کے وکیل قاسم ودود عدالت میں پیش ہوئے، ایس پی نوشیروان اور ڈی ایس پی لیگل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ایڈوکیٹ جنرل نے درج مقدمے کی تفصیل عدالت میں پیش کیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں جو لوگ آئے نہ سی ٹی ڈی کے نہ رینجر کے تھے ، یہ کنفرم کریں، جس پر ڈی ا?ئی جی نے بتایا کہ جی بالکل ان میں سے کوئی نہیں تھا۔
عدالت نے پوچھا کہ فوٹیج میں دیکھا گیا ہے کون ہے، ڈی ا?ئی جی نے عدالت کو بتایا کہ جی بالکل ہم اس کو دیکھیں گے عدالت ہمیں وقت دے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر گاڑیاں اور افراد کا تعین ہو گیا تو اس کے نتائج ہوں گے، اتنے لوگ جب سی ٹی ڈی اور رینجر کی وردی میں آئیں گے تو یہ شیم فل ایکٹ ہوگا۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کروڑوں روپے سیف سٹی پر لگ گئے، لوگوں کی ذاتی ویڈیوز بنا بنا کر اپلوڈ کردیتے ہیں لیکن چور اور ڈاکوؤں کو نہیں پکڑتے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کہاں ہیں ڈی جی رینجرز؟ ، وزارت دفاع سے کون ہے۔عدالت نے ڈی جی رینجرز کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت پر ڈی جی رینجرز کے خلاف شوکاز نوٹس جاری کروں گا، وہ ذمہ دار ہیں اگر ان کی وردی استعمال ہو رہی ہے تو۔جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے اندر اتنے لوگوں نے مل کر ایک بندے کو اٹھایا، پولیس رینجر اور سی ٹی ڈی کی وردی میں لوگ آکر بندہ لے گئے۔
