تہران(اے یو ایس ) ایران میں زیر حراست ایک جرمن نڑاد ایرانی خاتون کی زندگی خطرے میں ہے اور وہ اس قدر تکلیف میں ہیں کہ بمشکل حرکت کر سکتی ہیں۔ یہ بات انسانی حقوق کی معروف کارکن اور ان کی ساتھی قیدی نے اتوار کو بتائی۔68 سالہ ناہید تغاوی کو اکتوبر 2020 میں تہران کے اپارٹمنٹ سے گرفتار کیا گیا اور انہیں اگست 2021 میں 10 سال اور آٹھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں تہران کی ایون جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔حالیہ رہائیوں کے بعد بھی ایک درجن سے زیادہ مغربی پاسپورٹ رکھنے والے ایران میں زیر حراست ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق تہران نے مراعات حاصل کرنے کے لیے یرغمال بنانے کی دانستہ پالیسی کے تحت انہیں بدستور قید میں رکھا ہوا ہے۔
ایون جیل میں ان کی ساتھی قیدی اور انسانی حقوق کے لیے انعام یافتہ مہم چلانے والی نرگس محمدی نے انسٹاگرام پر لکھا “ایک سیاسی قیدی ناہید تغاوی کی زندگی خطرے میں ہے”محمدی کا انسٹاگرام اکاؤنٹ فرانس میں ان کے خاندان کے ذریعہ چلایا جاتا ہے۔ ان کے گھر والے رشتہ داروں کو ان کی فون کالز پر بنیاد پر انسٹا گرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کرتے ہیں۔ اپنی قید کے باوجود نرگس محمدی ایون میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ناہید تغاوی کو 2022 میں مختصر طبی چھٹی کی اجازت دی گئی تھی لیکن ان کے اہل خانہ کے مطابق وہ صحت یاب ہونے سے پہلے ہی واپس جیل بلا لی گئی تھیں۔نرگس محمدی نے کہا کہ وہ بمشکل اپنے بستر سے باہر نکل سکتی ہیں۔ وہ جیل کے ہسپتال جاتی، درد کم کرنے والے ہیوی انجیکشن لیتی اور پھر اپنے بستر پر واپس آتی ہیں۔
درد اتنا شدید ہے کہ ان کے چہرے پر دیکھا جا سکتا ہے۔نرگس نے بتایا کہ تغاوی اب 220 دن قید تنہائی میں گزار چکی ہے۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی کی موجودہ حالت خراب ہوگئی تھی اور اب وہ سروائیکل ڈسک کے مسائل، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر میں بھی مبتلا ہے۔تغاوی کو برطانوی- ایرانی مہران رو¿ف کے ساتھ قومی سلامتی کے الزامات میں سزا سنائی گئی تھی۔ مہران رو¿ف اب بھی زیرِ حراست ہے۔ تغاوی کا خاندان ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ ایران نے جمعہ کو بیلجیئم کے ایک امدادی کارکن کی رہائی کے بعد ایک ڈینش اور دو آسٹرین-ایرانی شہریوں کو رہا کیا تھا۔ان کی رہائی عمان کی ثالثی اور بیلجیئم کی طرف سے “دہشت گردی” میں سزا یافتہ ایک ایرانی سفارت کار کی رہائی کے بعد عمل میں آئی۔ گزشتہ ماہ ایران نے ایک فرانسیسی شہری اور ایک فرانسیسی- آئرش شہری کو بھی رہا کیا تھا، یہ دونوں بھوک ہڑتال پر تھے اور ان کی صحت کے بارے میں تشویش بڑھ رہی تھی۔
