What will be the political future of Imran Khan and PTI?

اسلام آباد(اےیو ایس ) ’عمران خان ہی پی ٹی آئی ہیں اور ان کے بغیر پاکستان تحریک انصاف کا کوئی مستقبل نہیں ہے‘ یہ بات کئی مرتبہ پی ٹی آئی کے سیاسی حریفوں کے علاوہ ان کے حامیوں کی جانب سے بھی کی جاتی رہی ہے۔دوسری جانب کئی سپوٹرز یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عمران خان مقبولیت کی اس بلندی پر ہیں کہ وہ جس کسی کو بھی پارٹی کا ٹکٹ دیں گے وہ آئندہ ہونے والے الیکشن میں کامیاب ہوگا۔لیکن اب بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف آئندہ انتخابات تک قائم و دائم رہے گی؟ اور عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟پہلے سوال کا جواب تو پچھلے چند دنوں میں خاصے واضع انداز میں مل رہا ہے۔نو مئی کو ہونے والے واقعات کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر کریک ڈاو¿ن اور گرفتاریاں ہوئیں۔ جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے درجنوں رہنماو¿ں کی پریس کانفرنس سننے کو ملیں۔ جن میں زیادہ تر پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے پارٹی چھوڑنے کے علاوہ سیاست سے بھی کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کر دیا۔

حال ہی میں عمران خان نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جو لوگ اس وقت پارٹی چھوڑ گئے ہیں ان کی جگہ وہ نئے نوجوانوں کو پارٹی میں جگہ دیں گے۔ جبکہ ان کا خیال ہے کہ وہ اس وقت تک سیاسی طور پر مظبوط ہیں جب تک ان کا ووٹ بینک اور سپورٹ قائم ہے۔اب ایک سوال تو یہ بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ لوگوں کو زبردستی پارٹی چھڑوانے یا پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ہونے والے کریک ڈاو¿ن سے پی ٹی آئی سپورٹ کو ختم کیا جا سکتا ہے؟نو مئی کے ہونے والے پرتشدد واقعات کو گزرے کئی دن ہو چکے ہیں۔ لیکن ان اثرات اب تک نظر آرہے ہیں۔ ریڈز، گرفتاریاں، عدالتی پیشیاں اور پھر ملڑی کورٹس میں عام پاکستانیوں کا مقدمہ چلنا۔ ان تمام باتوں نے خوف کی فضا پیدا کر دی۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کئی لوگوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ وہ اب پی ٹی آئی کو کھلے عام سپورٹ کرنے سے خوف ذدہ ہیں۔ اس لیے وہ خاموش ہیں۔اس بارے میں تجزیہ کار نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ چیزیں تھوڑی مختلف ہیں۔ کریک ڈاؤن کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ پی پی پی کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا تھا۔اس بار یہ فرق بھی ہے کہ اگر لوگ پکڑے نہیں جا رہے تو ان کے خاندان کے لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے۔ کسی کے سسر کو تو کسی کےبیٹے کو پکڑا گیا۔ اگر کوئی رہنما بیرون ملک ہے تو اس کے چھوٹے بھائی کو بھی نہیں بخشا گیا۔سب کو پتا چل رہا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس کریک ڈاؤن میں پولیس کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے لوگ بھی ہیں جو لوگوں کو جا کر ہراس کر رہے ہیں پکڑ رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے اس بار سب کچھ کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ اس مرتبہ جو انتظامیہ کا اور عدلیہ کا مقابلہ چل رہا ہے وہ پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔نسیم زہرہ کے مطابق ’عدلیہ اگر لوگوں کو بیل دیتی ہے تو انتظامیہ یعنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ رہا ہونے والوں کو دوبارہ گرفتار کر لیتے ہیں۔ مختلف لیڈر ہیں پی ٹی آئی کے تین تین چار چار مرتبہ پکڑے گئے اور چھوڑے گئے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کو لے لیں، علی محمد خان کو دیکھ لیں۔ فواد چوہدری کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے، وہ تو بھاگ کر جا رہے تھے کہ کورٹ سے ضمانت لے لیں تاکہ پھر نہ پکڑے جائیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ یہ سب آپ کے سامنے ہے سب کو پتا ہے کیا ہو رہا ہے کون کر رہا ہے۔ کلئیر کٹ اپروچ اور پلان ہے کہ توڑ پھوڑ کر پی ٹی آئی کو ختم کرنا ہے۔‘آپ نے دیکھا کہ جہانگیر ترین فوراً اٹھ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ ق میں تھوڑی سی جان زیادہ پڑی ہے۔ ابھی واضح نہیں کہ شاہ محمود قریشی اور تین چار اور لوگ تحریک انصاف سے جڑے رہیں گے یا نہیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن کا کہنا تھا کہ اس وقت پارٹی کی صورت حال کمزورہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی صرف عمران خان تک ہی محدود ہے۔ جب پارٹی کے دیگر رہنما گرفتار ہوئے تھے تو ہمارے لیے کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ان کے مطابق ’میں حلقے کی سیاست کرنے والا بندہ ہوں اوربطور سیاست دان میں نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ میرے علاقے کے لوگ کس حال میں ہیں۔ جب یہ کریک ڈاون شروع ہوا تو میرے حلقے کے کئی لوگ پکڑے گئے۔

ان کے پیچھے جانا بھی ضروری تھا۔‘کیا آپ نے کسی قسم کے دباو¿ اور خوف کے ڈر سے پارٹی چھوڑی ہے یا اپنے مرضی سے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر کوئی دباو¿ نہیں تھا۔ ہمارے ملک میں سیاست دان ہوا کا رخ دیکھتا ہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ کچھ لوگوں پر دباؤ بھی ڈالا گیا ہے۔‘ان کےمطابق ’لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ سب پر دباؤ ڈالا گیا ہے تو یہ غلط ہوگا۔ اور جہاں تک رہی بات دباؤ ڈالنے والوں کی تو یہ وہی لوگ ہیں جو پی ٹی آئی کو وجود میں لائے اور عمران خان کو سنہ 2018 میں مسند اقتدار تک پہنچایا۔‘کیونکہ اب لڑئی بھی انھی لوگوں سے ہے جنھوں نے پی ٹی آئی کو بندے پورے کر دیے تھے تو وہ بندے توڑ بھی سکتے ہیں۔ اس لیے میں تو اس پارٹی کا سیاسی مستقبل کچھ زیادہ روشن نہیں دیکھ رہا۔دوسری جانب کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو دباو¿ اور گرفتاریوں کے باوجود بھی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پارٹی سے منسلک چند ایسے لوگوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے کچھ ساتھی گرفتار ہوئے ہیں۔ تاہم ہم ابھی تک اپنے آپ کو گرفتاری سے بچانے میں کامیاب ہیں۔ ایسے ہی ایک پی ٹی آئی کے رکن نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے پاکستان سے باہر چلے جائیں گے۔جبکہ ایک صاحب ایسے بھی ہیں جو اپنے گھر اور اہل خانہ سے کئی سو میل دور کسی علاقے میں چھپنے پر مجبور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ان کی یہ رائے ہے کہ کوئی سیاسی جماعت مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی ہے۔ ہمھیں پہلے لگتا تھا کہ مسلم لیگ ن کی سیاست ختم ہو گئی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے ہمیں یقین ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی ختم کرنا آسان نہیں ہے۔