Manipur as violence continues for more than a month

امپھال(اے یو ایس )فوج نے ٹوئٹر پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا، ”سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے ایک گروپ کے درمیان پانچ اور چھ جون کے درمیان پوری رات رک رک کر فائرنگ ہوتی رہی۔ سکیورٹی فورسز نے حملے کا مو¿ثر طور پر جواب دیا۔ سرچ آپریشن جاری ہیں۔“اس بیان میں مزید کہا گیا کہ فائرنگ کے اس واقعے میں نیم فوجی دستے بارڈر سکیورٹی فورسز کا ایک جوان ہلاک اور آسام رائفلز کے دو جوان زخمی ہو گئے۔ ادھر پولیس نے بتایا کہ پیر کے روز امپھال ضلع میں دو مسلح گروپوں کے درمیان تصادم میں بھی کم از کم تین افراد ہلاک اور چار دیگر زخمی ہو گئے۔میانمار سے ملحق شمال مشرقی بھارتی صوبے منی پور میں تین مئی سے شروع ہونے والے پرتشدد واقعات میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 100 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی اور ہزاروں افراد بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔ اس دوران درجنوں گرجا گھروں کو جلا دیا گیا ہے جبکہ متعدد مندروں کو بھی آگ لگا دی گئی۔

مرکزی حکومت نے گزشتہ ماہ سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں تقریباً چالیس ‘دہشت گردوں‘ کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم متعدد حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ہلاک شدگان دہشت گرد نہیں بلکہ مقامی قبائلی تھے۔ تشدد کا یہ سلسلہ تین مارچ کو ہائی کورٹ کی طرف سے اکثریتی میئتی ہندو کمیونٹی کو درج فہرست قبائل کا درجہ دینے کے فیصلے کے خلاف قبائلیوں کے احتجاجی مارچ کے بعد شروع ہوا تھا۔کوکی قبائلیوں،جن میں اکثریت مسیحیوں کی ہے، کا کہنا ہے کہ میئتی کمیونٹی کو درج فہرست قبائل کا درجہ دینے سے وہ خود نہ صرف تعلیم اور روزگار میں مزید پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ان کی زمینیں بھی چھن جانے خطرہ ہے۔ بھارت میں دیگر سماجی طبقات کے افراد قانونی طور پر قبائلیوں کی زمینیں نہیں خرید سکتے۔ اس کے علاوہ قبائلیوں کو تعلیم اور ملازمتوں میں خصوصی ریزرویشن بھی حاصل ہے۔تشدد کے مسلسل واقعات اور دونوں نسلی گروہوں کے درمیان جھڑپوں کے مدنظر منی پور حکومت نے انٹرنیٹ پر پابندی میں 10جون تک کی توسیع کر دی ہے۔اس تشدد کے دوران متعدد مقامات پر سکیورٹی فورسز اور پولیس کے ہتھیاروں کو لوٹ لینے کے واقعات بھی پیش آئے۔ انتظامیہ کا تاہم کہنا ہے کہ لوٹے گئے بیشتر ہتھیار برآمد کر لیے گئے ہیں۔

گزشتہ دنوں وزیر داخلہ امت شاہ نے منی پور کا دورہ کر کے صورت حال کا جائزہ لیا تھا۔ انہوں نے تشدد میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی وارننگ بھی دی تھی۔ مرکزی حکومت نے ان واقعات کی انکوائری کے لیے ایک عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس دوران امت شاہ نے ایک ٹویٹ کر کے لوگوں سے امن اور خیر سگالی کی فضا برقرار رکھنے کی اپیل بھی کی تھی۔تاہم متعدد رہنماو¿ں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ کیا وزیر داخلہ کو یہ علم نہیں کہ جن لوگوں کے لیے وہ ٹویٹ کر رہے ہیں، ان کے لیے انٹرنیٹ ہی بند کیا جا چکا ہے۔ ۔“