ہانگ کانگ: ہندوستان اور چین کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہی تلخ رہے ہیں۔ برطانوی نو آبدیاتی دور میں چینی منڈیوں میں افیون کے غیر ملکی تاجروں کے زبردستی گھسنے کے لیے ہندوستان ایک ذریعہ تھا جس سے یو کے اور اس وقت کی چانگ سلطنت کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس میں چین کو ہزیمت اٹھانا پری۔ آزادی کے بعد سے ہندستان کے اپنے سب سے بڑے پڑوسی سے تعلقات تبت اور پاکستان اوردونوں ملکوں کی مشترکہ ہمالیائی سرحد جیسے معاملات کی وجہ سے ہمیشہ نشیب و فراز کا شکار رہے۔اس ہفتہ وادی گلوان میں ہونے والی سرحدی جھڑپ سے ،جو 40سال میں ہونے والی پہلی نہایت خونریز تھی ، خون منجمد کرنے والے درجہ حرارت اور آکسیجن کی شدید کمی کے درمیان پہاڑوں کی بلندیوں پر لات گھونسوں اور لوہے کی چھڑوں اور لاٹھی بلموں سے سفاکانہ حملوں کے بعد 20سے زائد ہندوستانی فوجی ہلاک ہو گئے، سرحد پر کشیدگی پھر بڑھ گئی ہے ۔
اب جبکہ دونوں ممالک فوجوں میں بتدریج کمی لانے میں جلدی کر رہے تھے کہ یہ ٹکراو¿ ہندستان کو چین سے دور کر کے چین کے روایتی حریفوں امریکہ اور جاپام اور ساتھ ہی چین کے خلاف ابھرتے آسٹریلیا کی جانب اپنا رخ کر لے گا۔ہندوستان چینی جارحیت کے خلاف اب ان حلیفوں پر پہلے سے زیادہ بھروسہ اور انحصار کرے گا۔ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کے روز کہا کہ” ہمارے فوجیوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی“۔”ہندوستان کی یکجہتی اور اقتدار اعلیٰ ہمارے لیے سب سے مقدم ہے اور کوئی ہمیں اس کے دفاع سے نہیں روک سکتا۔ کسی کو بھی اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ہندوستان امن چاہتا ہے لیکن اگر اشتعال دلایا تو ہندوستان منھ توڑ جواب دے گا۔اصل حزب اختلاف کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے دو ٹوک لہجہ میں کہا کہ چین نے ہمارے فوجیوںکو ہلاک کرنے کی کیسے جرات کی۔ان کی کیسے ہمت ہوئی کہ وہ ہماری زمین پر قبضہ کریں؟“موقر انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز نے بدھ کے روز اپنے اداریے میں لکھا کہ ”چین ہندوستان کی طاقت اور عزم کو محدود کرنا چاہتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ہندوستان ایشیا اور اس سے پرے تک چین کی بالادستی اور عظمت تسلیم کرلے“۔اخبار رقمطراز ہے کہ اس کے جواب میں ہندوستان کو امریکہ سے اپنے اشتراک کو دوگنا کر دینا چاہئے ۔
اور ”دی کواڈ‘(چار ملکی) ۔۔۔ مزید مستقل بندوبست کرنا چاہئے اور اس کلب کا حصہ بن جانا چاہئے جو چین کے پر قینچ کرنا چاہتا ہے۔چار ملکی یا چہار فریقی سلامتی مذاکرات امریکہ ،جاہان، آسٹریلیا اور ہندوستان(Quad) کے لیے ایک غیر رسمی اسٹریٹجک فورم ہے جس کے تحت ریگولر اجلاس ہوتے ہیں، اطلاعات کا تبادلہ ہوتا ہے اور مشترکہ فوجی مشقیں ہوتی ہیں۔چونکہ ناٹو کی مانند کوئی باقاعدہ فوجی اتحاد نہیں ہے جس کے باعث کچھ لوگ دی کواڈ کو بڑھتے چینی اثر و رسوخ اور ایشیا بحرالکاہل میں اس کی مبینہ جارحیت کا زبردست توڑ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ اس تعلق کے زیادہ بے ضرر پہلو مثلاً کورونا وائرس عالمی وبا پر حالیہ تعاون، ان ممالک کے ذریعہ فوجی محاصرے کے لیے اس کی صلاحیت چین کی نظروں میں آئے بغیر نہیں رہی ہوگی۔2007 کے اوائل میں جب پہلے کواڈ اجلاس کی تجویز پیش کی گئی تو چین نے اس میں شامل تمام فریقوں سے سافرتی سطح پر احتجاج کیا اور بعد ازاں اسی سال کے اواخر میں چین کے ڈر سے آسٹریلیا اس چار ملکی بندوبست سے نکل گیا جس کی وجہ سے2017تک اتحاد رک گیا اور بحیرہ جنوبی چین میںچینی پیش قدمیوں پر بڑھتی تشویشات کے باعث 2017میں اس کے اجلاس پھر شروع ہو گئے۔ استعداد اور صلاحیت کے اعتبار سے امریکی قیادت والا چین مخالف بلاک کواڈ سے کہیں زیادہ بڑا اور وسیع ہو سکتاہے ۔
اس ماہ کے اوائل میں مودی اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فونی گفتگو کے دوران ٹرمپ نے ہندوستان کو آئندہ جی7-اجلاس میں شرکت کی دعوت دے دی۔وائٹ ہاؤس کی ترجمان کائیلی میک انانی کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ہند چین سرحد کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔ٹرمپ پہلے بھی چین کے مستقبل کے لیے اس سال کے مجوزہ اجلاس کے خاطر خواہ استعمال کے لیے یورپی اور شمال امریکی ممالک کے روایتی گروپ کو امریکہ کے اتحادیوں آسٹریلیا اور جنوبی کوریا کو شامل کر کے اسے وسعت دینے کی بات کرتے رہے ہیں ۔ہندوستان روایتی طور پر امریکہ کے قریب آنے کے معاملہ میں کافی ہوشیار اور چوکس رہا ہے کیونکہ اس کے چین سے سفارتی نہ سہی اقتصادی تعلقات ہیں اور وہ چین کے ساتھ تعلقات میں توازن چاہتا رہا ہے۔لیکن سرحد پر بڑھتے دباؤ اور ٹرمپ اور مودی کے درمیان بڑھتی قربت و مضبوط ذاتی تعلقات ایک مرکز پر آنے کے لیے نہایت مناسب وقت ہو سکتا ہے۔
خارجہ امور کی تجزیہ کار امریتا جش کے مطابق،جنہوں نے اس ہفتہ لکھا کہ”ہندوستان کا ہند بحرالکاہل میں مضبوط قدم جمانابحرہند میں چین کی بڑھتی مداخلت کا جواب ہوگا،کواڈ (Quad) اور امریکہ کے ساتھ دیگر فوجی اتحاد دونوں میں ہندوستان کی زیادہ سے زیادہ شرکت امریکہ کے حق میں بڑی سود مند ثابت ہو گی ۔اس ہفتہ ہمالیہ میں ہونے والی خونریزی کے بعد ہندوستان اور چین دونوں ہی پعر امن رستے برقرار رکھنا اور فوجوں میں کمی کے خواہاں ہیں لیکن بہت سے ماہرین کو اس کی امکانیت اور پائیداری پر شک ہے۔ میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ برائے تکنالوجی میں سیاسی تشدد اور جنوب ایشیا کے ماہر تجزیہ کار نے اس ماہ پیش گوئی کی کہ حالیہ ٹکراؤ ایسی ہند چین صورت حال پیدا کر سکتا ہے و ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بدصورت استحکام کا عکاس ہو گا۔ چین اور ہندوستان میں تلخ تعلقات کو کورونا وائرس وبا سے پہلے ہی نقصان پہنچ چکا ہے کیونکہ ہندوستان میں زیادہ ر کا خیال ہے چین کی غفلت سے یہ وبا پھیلی ہے اور چینی حکام اپنے ہندوستانی ہم منصبوں کی جانب سے عالمی صحت تنظیم اور دیگر بین الاقوامی فورموں پر چین کی حمایت نہ کرنے پرکافی برہم ہیں۔
کواڈ یا امریکہ کی جانب کوئی بھی بڑی تبدیلی اسی وقت ہو سکتی ہے جب ہندوستان کو یقین ہو جائے کہ چین سے تعلقات اب قابو سے باہر ہو چکے ہیں او رسدھرنے کا میلوں دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔تاہم اس سے ہندوستان اور چین دونوں کو ہی بھاری قیمت چکانا پڑسکتی ہے۔مودی کے دور اقتدار میں چین کے ساتھ ہندوستان کے اقتصادی تعلقات میں اضافیہ ہو رہا ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا تناسب عالمی معیشت کا 17.6 فیصدہے ۔ تاہم باوجود اس کے کہ چین ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے 2017-18میں ہند چین کے درمیان دو طرفہ تجارت کا تخمینہ84بلین ڈالر لگایا گیا ہے جو کہ چین امریکہ کے درمیان اسی مدت کے دوران ہونے والی تجارت کا بہت قلیل حصہ ہے کیونکہ اسی مدت کے دوران امریکہ و چین کے درمیان 600بلین ڈالر کی تجارت ہوئی ۔کورونا وائرس وبائی بیماری سے پہلے ، چین ہندوستانی منڈی میں بتدریج ایک بڑے غیر ملکی سرمایہ کار کے طور پر ابھر رہا تھا ، لیکن اس رجحان کو ہندوستان کے ذریعہ وسیع پیمانے پر وضع کیے گئے سرمایہ کاری کے نئے قواعد و ضوابط نے ،جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چینی کمپنیوں کو ہدف بنا کر کیے گئے تھے، روک دیا ہے۔
اقتصادی پریشانی ہی واحد شے نہیں ہے جس میں مشترکہ طور پر شراکت ہو ۔ چین اس بات پر چڑ سکتا ہے کہ ہندوستان امریکہ اور جاپان سے پینگیں بڑھائے لیکن وہ اس کا جواب ہندوستان کے سب سے بڑے حریف پاکستان کی حمایت میں اضافہ کر کے دے سکتا ہے ۔چین کے پاکستان کے ساتھ قریبی اقتصادی ، سفارتی اور فوجی تعلقات ہیں جو اسے خطے میں پاکستان کے قریبی اتحادیوں میں سے ایک ثابت کرتا ہے۔ تھنک ٹینک سی ایس آئی ایس کے مطابق 2008 سے 2017 کے درمیان پاکستان نے چین سے 6 ارب ڈالر سے زیادہ اسلحہ خریداہے۔ چین نے کمیونسٹ لیڈر شی جن پینگ کے بیلٹ اینڈ روڈ تجارت اور بنیادی ہڈھانچہ میگا پروجیکٹ کے لازمی جزو چین پاکستان اقتصادی راہداری میں بھی اربوں کی سرمایہ کاری کی ہے ۔کچھ تجزیہ کاروں نے ہمالیہ میں حالیہ کشیدگی کا ایک محرک اس راہداری کو بھی قرار دیا ہے۔ دوسرا عنصر کشمیر کے حوالے سے ہندوستان کے حالیہ اقدامات ہیں جس پر چین نے اقوام متحدہ میں ہندوستان کی سرزنش کرانے کی ناکام کوشش میں پاکستان کی حمایت کی۔اسی طرح ، چین نے روایتی طورپر ہندوستان کے دائرہ اثر و رسوخ میں سمجھے جانے والے ممالک بشمول نیپال ، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں سفارتی اور اقتصادی راستے بنائے۔
ہندوستان کے جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک نے بھی کورونا وائرس وبا کے دوران مدد کے لیے چین کو تکنا شروع کر دیا جس سے اس رجحان کو تقویت ملی اور چین کو خطے میں بھاری سرمایہ کاری کرتے ہوئے دیکھا۔چین کے ساتھ کام کرنے کی ، خاص طور پر نیپال کی خواہش کی وجہ سے ہندوستان میں ممکنہ جغرافیائی سیاسی از سر نو تصحیح سے تشویش پیدا ہو گئی۔ نیپال ، جو ہندوستان اور چین کے درمیان سینڈوچ بنا ہے اور جس نے حال ہی میں اپنے جنوبی پڑوسی کے ساتھ ایک نظر ثانی شدہ نقشہ جس میں ہندوستانی علاقے بھی شامل کیے گئے ہیں، پارلیمنٹ سے منظور کرا کے سر چکرا دیے ہیں ۔خطے میں مسئلہ کا ایک جزو بے ترتیب اور بڑے تنازعہ والی سرحدیں ہیں جن میں متعدد ممالک کی شراکت ہے ۔ اگر چین اور ہندوستان کے مابین تعلقات بدستور بگڑے رہتے ہیں بیجنگ اور دہلی کے مابین تعلقات بدستور بدستور بدستور بدستور برقرار رہتے ہیں ، تو ، وہ جغرافیائی سیاسی پیچیدگیوں کے ڈراؤنے خواب کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لگتا ہے جو پورے ایشیا۔بحر الکاہل میں پیدا ہوسکتا ہے۔