محمد عادل فراز،نگلہ ملّاح سول لائن علی گڑھ
رات کا سیاہ اندھیرا پورے شباب پر تھا۔دور دورتک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ لیکن وحشی جانوروں کی آوازیں بلند تھیں۔کتے اوربھیڑیوں کی آوزیں دل کو دہلاجاتی تھیں۔انسانیت اپنے وجود کو چھپائے ہوئے،اپنے تھکے ہوئے اور مردہ جسموں کے ساتھ اپنے اپنے مسکنوںمیں پوشیدہ ہو گئی تھی۔جیسے کسی نے اس کو اسیر کر لیا ہو۔
ایسے ماحول میں کون کس کی خبر لیتا۔نفسا نفسی کا عالم تھا۔میں نے دیکھاایک دوشیزہ جس کی زلفیں بکھری ہوئیں تھیں۔نہ جانے کس فکر میں مبتلا تھی۔بیڑیوں میں جکڑی ہوئی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ کسی کی غلامی سے بھاگ کرآئی ہے اورکسی پر سکون دنیا کی تلاش میں ہے۔
اس کی آغوش میںدو بچے تھے۔جس میں ایک بچے کی پیشانی پر ٹیکا اور دوسرے بچے کے سر پر ٹوپی تھی۔دوسری طرف مسلسل ایک بھیڑ تھی جس کے ہاتھوں میں ہتھیار اورمشعالیںتھیں۔چہرے ایسے جیسے جانور انسان کے قالب میںآگئے ہوں۔آنکھوں میں خون اترا ہوا ۔
اس کے پیچھا کر رہی تھی۔مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ بھیڑیے ہرن کے تعاقب میںہیں اور آج اس کا شکار کر لیںگے۔یکایک بھیڑ میں سے ایک شور اٹھا۔”پکڑ لو!مارو!جانے مت دو،یہ ڈاین ہے۔بچے کھاتی ہے۔آج اس کی بلی دینی ہے“ایک بولا! ”یہ پاگل ہے ۔اس نے جاتی ،دھرم کو مٹی میں ملا دیا ہے۔
اس کو ہندو مسلمان کی بھی سمجھ نہیں۔اس کی چتا جلانی ہوگی“اس شور شرابے میں اس دوشیزہ کی آواز دب چکی تھی۔کوئی اس کا ہمدرد نظر نہیں آتا تھا۔اچانک وہ ٹھوکر کھا کر نیچے گرتی ہے۔اس کے چہرے پر پڑا ہوا حیا کا گھونگھٹ ہٹ جاتا ہے۔پیشانی سے لہو ٹپکنے لگتا ہے۔پھر کیا تھا جانور اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
کچھ درد بھری چیخیں نکلتی ہیں اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔اگلے دن جنگل میںایک لاش ملتی ہے۔لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ درندوںکا کام ہے۔اور کسی اجنبی کی لاش ہے۔لیکن مجھے اس کے چہرے میںاپنا چہرا دکھائی دیا۔
مجھے احساس ہوا کہ آ نے والی نسلوں کو کسی نے کچل دیا ہو۔برابر میں دو معصوم بچے خاک میںلتھڑے ہوئے پڑے تھے۔اور دوسری طرف صبح کی اذان اورمندر میںگھنٹا بج رہا تھا۔