تہران: (اے یو ایس ) ایران کے سابق وزیر خارجہ اور ایرانی جوہری توانائی کے ادارے کے سابق سربراہ علی اکبر صالحی نے لیبیا میں قدس فورس کی موجودگی اور لیبیا کے ایک ایسے گروپ کو خدمات فراہم کرنے کا انکشاف کیا ہے جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی مگر اسے ایرانی ہلال احمر کی آڑ میں مدد دی گئی تھی۔
صالحی نے کل یکم جنوری 2022 کو ’خراسان‘ اخبار میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں مسٹر صالحی نے کہا کہ 2011 میں لیبیا کے دورے کے دوران، یعنی لیبیا میں انقلاب کے دوران انہوں نے دیکھا کہ ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس نے لیبیا کی خانہ جنگی میں زخمی باغیوں کی مدد کی تھی۔ اس نے ایرانی ہلال احمر کی مدد سے تنصیبات بھی بنائیں ، لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان سہولیات کی نوعیت اور قدس فورس نے ہلال احمر کو کیوں استعمال کیا؟ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ قدس فورس نے کس کی مدد کی تھی اور اس مدد کی نوعیت کیا تھی؟۔یہ بیانات بغداد ہوائی اڈے کے قریب ایک امریکی ڈرون کے ذریعے پاسداران انقلاب کے بیرون ملک بازو قدس فورس کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کی دوسری برسی کے موقعے پر سامنے آیا ہے۔
صالحی نے شمالی افریقہ میں سفیروں کے ساتھ ساتھ مشرقی عرب ملکوں کے سفیروں کی تقرری میں سلیمانی کے کردار کا بھی اعتراف کیا اور واضح کیا کہ لیبیا اور تونس میں ایران کے سفیر کی تقرری کے لیے ان کی سلیمانی سے ملاقات لازمی ہوتی تھی تاکہ وہ آپس میں رابطے میں رہ سکیں۔ اس وقت تونس میں بیمان جبلی کو ایران کا سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ جبلی آج کل ایران کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کارپوریشن کے ڈائریکٹر کے طورپر خدمات انجام دے رہے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ عسکری قوتوں اور ایرانی ہلال احمر سوسائٹی کے درمیان تعاون اور اس سول سوسائٹی کو خفیہ طور پر استعمال کرنے کا معاملہ دیرینہ ہے۔ اپریل 2020 میں پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر سعید قاسمی نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے 1990 کی دہائی میں حسین اللہ کرم کے ساتھ بوسنیا کا سفر کیا تھا۔ یہ سفر ایرانی ہلال احمرکی چھتری تلے کیا گیا مگر وہاں انہوں نے بوسنیائی فورسز کو عسکری تربیت دی تھی۔
قاسمی کے بیانات پر اس وقت شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور پاسداران انقلاب اور ایرانی حکومت کے اہلکاروں نے پاسداران انقلاب کے سابق رکن کے بیان کی سختی سے تردید کی تھی۔ایرانی ہلال احمر سوسائٹی نے قاسمی کو مقدمے کی دھمکی بھی دی تھی۔علی اکبر صالحی نے خراسان اخبار کے ساتھ اپنے انٹرویو میں شام کی خانہ جنگی میں ایرانی فوجی موجودگی پر اختلافات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ کہہ رہے تھے کہ ہم شام کیوں جاتے ہیں؟۔ وہ ایرانی حکومتی عہدیداروں کا حوالہ دیتے جو شام میں خانہ جنگی میں شامل ہونے کی مخالفت کرتے تھے۔