ہندوستان ریسرچ اینڈ انالسز ونگ (را) میں پاکستان ڈیسک کے سربراہ رانا بنرجی کے مطابق پاکستان کے جنرل اسد درانی نے جو انکشافات کئے نہیں اس سے پاکستان کے موجودہ فوجی افسران بالا کے چہرے بری طرح داغدار ہوسکتےہیں۔انہوں نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل اسد دانی کی کتاب ”آنر امنگ اسپائز“ (ہارپر کولنز انڈیا2020) کا جسنے سنسنی دوڑا دی ہے،خلاصہ پیش کیا ہے ۔اس کتاب کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ ایک خیالی ہے اور سارے کردار خیالی ہیں۔ اس میں بقید حیات اور مرحوم حقیقی افراد سے کسی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہوگی۔ تاہم قطع نظر اس بات کے اس کتاب میں پاکستان فوج کے موجودہ بااختیار افسران پر سخت تنقید کی گئی ہے۔را کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مل کر لکھی گئی اس کتاب ’دی اسپائی کرونیکلز : را، آءایس آئی اینڈ دی الیوژن آف پیس کے منظر عام پر آنے کے بعد آئی ایس آئی کے ذریعہ انکوائری کے دوران ہونے والی جسمانی و ذہنی تکالیف و مشقتوںکا درانی نے انتہائی کرب کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔درانی کی پنشن عارضی طور پر روک دی گئی (لیکن پھر بحال ہو گئی) اور ان کا نام ایکزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ درانی نے پورے اعتماد کے ساتھ یہ بات زور دے کر کہی کہ انکوائری میں ان کے خلاف کوئی ایسی بات ثابت نہیں ہوگی جو ملک کے حق میں نقصان دہ ہو۔کیونکہ انہوں نے ایسے کوئی سرکاری راز افشا نہیں کیے جو پہلے سے کسی کو نہ معلوم ہوں یا ”ان دی لائن آف فائر۔ اے میموائر کے مصنف جنرل پرویز مشرف جیسے دیگر جنرلوں کی طرح پہلے ظاہر نہیں کیے گئے ۔
درانی کو یقین ہے کہ انہیں ہراساں کرنے کا اصل سبب بیرون ملک کانفرنسوں میں بی بی سی اور الجزیرہ کو دیے گئے وہ انٹرویوز ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے (اس میں ان کی جنس مونث میں تبدیل کی گئی ہے) آستانے کا پاکستانی فوجی قیادت کو علم رہا ہوگا اور مئی 2011میں انہیں لے جانے کے لیے امریکی نیوی سیل کے آپریشن نیپچون اسپیئر کے منصوبوں سے واقفیت رہی ہوگی۔ آئی ایس آئی میں بر سرخدمت ایک پاکستانی کرنل کے امریکی سفارت خانہ واقع اسلام آباد میں داخل ہونے اور مخبری کرنے کے بعد اس وقت کے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی ، اس وقت کے آئی ایس آئی ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل احمد شجاع پاشا اور سی آئی اے کے متعلقہ امریکی افسران کے درمیان معاہدے میں یہ سب طے ہوا تھا۔
درانی نے اپنے غیر ملکی رابط کاروں کو یہ بتانے کا اعتراف کیا کہ ’بہت ممکن ہے کہ انہیں چھاپے کا علم رہا ہو وگرنہ بصورت دیگر وہ بہت جوکھم بھرا ہوتا:مداخلت کمزور پڑ جاتی، زمینی فائرنگ ہوتی اور بن لادن کے مسلح محافظوں یا مقامی باشندوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔اگر پاکستان میں اس معاملہ میں میں شامل ہوتا تو میں بن لادن کا سراغ لگا لیتا اور اسے ایسی جگہ رکھتا جہاں کسی کو شبہ تک نہ ہوتا اور ایک روز امریکہ سے کہتا کہ آؤ اور اسے لے جاؤ۔
بلاشبہ اس واقعہ پر وہ اپنی لاپروائی کا اظہار کرتے اور جب پاکستانی حدود کے اندر کسی غیر ملکی کارروائی کا معاملہ ٹھتا تو اس میں اپنی نااہلیت کا اعتراف کر لیتے لیکن ایک مقامی ہیرو کو ہلاک کرنے میں غیر ملکی طاقت کی مدد کرنے پر خانگی عتاب کا خطرہ نہ مول لیتا۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ انہوں نے اس کا آغاز بن لادن کی قیام گاہ کی اطلاع دے کر غداری کرنے والے کرنل کے، جو ایک سابق انٹیلی جنس افسر تھا اور ان کی ماتحتی میں کام کر چکا تھا،” داخل ہونے“ لفظ سے کیا۔
پوری کتاب میں درانی کے تمام افسانوی کرداروں کے نام قلمی ہیں جو نہ صرف مزاحیہ ہیں بلکہ ان اصل شخصیات کی بھی آسانی سے شناخت ہو سکتی ہے جنہوں نے پاکستان کی حالیہ تاریخ کے دلچسپ مراحل کے دوران ، خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔
کتاب میں درانی نے خود کو اسامہ بارکزئی نام کا کردار بنایا ہے جو ایک پشتون قبائلی ہے جس کے جاگیردار آبا و اجداد پاکستانی پنجاب کے شہر گجرات منتقل ہو جاتے ہیں۔مشرف کا نام گلریز شاہ رخ ، موجودہ پاکستانی فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو جبار جٹ رکھا گیا ہے جسے نوین شیخ(نواز شریف) نے شریف خاندان کے باجوہ کے سسرالیوں سے گہرے مراسم کے باعث اقربا پروری کے فارمولے کے تحت دوسرے اعلیٰ افسران پر ترجیح دے کر فوجی سربراہ بنایا تھا۔حمید گل کو گل محمد، اسلم بیگ کو اکرم مغل، موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو خورشید قادری جو ناٹ جانے (یو ٹرن) اور اسی قسم کے کئی معاملات میں ماہرہے نام دیا ہے۔
سابق فوجی سربراہ اشفاق پرویز کیانی کو راجا رسالو نام دیا گیا ہے جو کوئٹہ اسٹاف کالج میں( اس میں درانی انسٹرکٹر رہ چکے ہیں) مصنف کے پسندیدہ طلبا میں سے ایک تھا۔اسے پاکستان کے نادر سوچ رکھنے والے جنرلوں میں سے ایک بتایا گیا جو اپنے کیریر کے آخری ایام میں پیسوں کے لالچ میں پڑکر کمزور ہو گیا( کیانی کے فوجی سربراہ ہونے کے دوران زبردست منفعت بخش تجارتی سودوں میں ان کے رشتہ داروں کے ملوث ہونے کے کھلے الزامات کا حوالہ) ۔
کتاب میں ہر لحاظ سے طاقتور فوج کو ”نیشنل گارڈ“ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کو جہاں درانی سے بار بار تفتیش کی جاتی رہی”باڑا“ نام دیا گیا ہے۔آئی ایس آئی کے کئی تفتیش کاروں کو جو نام دیے گئے ہیں اور جس طرح انہیں بیان کیا گیا ہے انہیں پاکستان کے بر سر کار افسران بڑی آسانی سے پہچان لیں گے۔دولت کا نام” رندھیر سنگھ “ رکھا ہے اور کرگل کو ”پیر پنجال درہ“ کے طور پر بتایا گیا ہے۔ حال ہی میں مارے جانے والے کشمیری صحافی شجاعت بخاری کو وجاہت سمرقندی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ معروف امریکی صحافی سیمور ہرش کو، جس نے اسامہ بن لادن کی داستان لکھی، سائمن ہیرش نام دیا گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی کو”شرما‘ اور من موہن سنگھ کو کے آئی گججر نام سے پکارا گیا ہے۔کرتارپور گوردوارے کو سردار پور نام ددیا گیا ہے۔مزید دلچسپی کی بات یہ ہے کہ درانی نے کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا کہ ان ہندوستانیوں سے گفتگو کی مزید تفصیلات جو دولت کے ساتھ ان کی کتاب لکھنے کا باعث بنیں ،جاننے کے لیے یو کے ، یو ایس اور جرمنی میں سفارت کاروں نے، جو اسلام آباد میں( بلاشبہ خفیہ افسران تھے)ان سے ملاقات کی کوشش کی تھی۔درانی نے جیسا دعویٰ کیا اس کے مطابق اسی قسم کی کوشش دہلی میں دولت کے ساتھ کی گئی۔چونکہ ہندوستان کی جانب سے کوئی زیادہ مدد نہیں کی گئی اس لیے درانی نے ان کا منصوبہ جاننے کے لیے اپنے سفارتی رابطوں کے ساتھ متعدد خفیہ ملاقاتیں کیں۔لیکن اس کوشش میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
اس من گھڑت داستان کا اختتام وفاقی شرعی عدالت میں درانی کو الزامات سے جزوی طور پر بری کرنے پر ہوا۔ شرعی عدالت کی کارروائی کے دوران ایک مرحلہ پر فضائیہ کا ایک ملازم بشر خان جس نے اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد ٹھکانے پر فضائی دفاع میں امریکیوں کے لیے گنجائش کا انکشاف کیا تھا بطور گواہ پیش کیا جانا تھا لیکن آخری لمحات میں اپنی جان کے خوف سے گواہی دینے نہیں آیا۔
محفوظ فیصلہ کے ساتھ کیس آخری مرحلہ میں داخل ہوا تو درانی نے خیال ظاہر کیا کہ موجودہ فوجی سربراہ کو انہیں ہراساں کرنے کے لیے کیانی نے، جو باجوہ کے سابق باس ہیں اور انہی کی رجمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں، اکسایا تھا ۔
غالب کا حوالہ دیتے ہوئے درانی رقمطراز ہیں ”یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات۔ دے اور دل ان کوجو نہ دے مجھ کو زبان اور “
یہ بات خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ یہ کتاب جو خیالی ہے ایک ریٹائرڈ پاکستانی جنرل نے ایسے وقت میں لکھی ہے جب پاکستانی سیاست ہنگامہ خیز موڑ پر ہے جہاں نواز شریف جمہوریت کا شیرازہ بکھیرنے میں فوجی جنرلوں کے رول پر کھلے سوال اٹھا رہے ہیں۔مزید برآں یہ ہندوستان میں اشاعت کے لیے اسمگل کی جا سکتی ہے۔