کابل:(اے یو ایس )افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کو ایک برس مکمل ہو گیا ہے اور اس موقع پر ملک بھر میں 15اگست بروز پیر عام تعطیل رہی۔ایک سال کے عرصے کے دوران دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تاحال تسلیم نہیں کیا جب کہ شدید معاشی مسائل، سیکیورٹی چیلنجز اور طالبان حکومت کے متعارف کردہ سخت قوانین نے افغان عوام کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق طالبان حکام نے سرکاری طور پر اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے پر کسی بھی تقریب کا اعلان نہیں کیا البتہ سرکاری ٹی وی نے اس مناسبت سے خصوصی پروگرام نشر کیے۔طالبان کے جنگجو اقتدار میں آنے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں تاہم امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لگ بھگ چار کروڑ آبادی والے ملک میں سے آدھی آبادی شدید غربت کا شکار ہے۔افغان دارالحکومت کابل میں رہائش پذیر اوغئی امیل کہتی ہیں کہ جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں ان کی زندگی کا مقصد ہی ختم ہو گیا ہے۔امیل کہتی کے بقول’ہم سے ہر چیز چھین لی گئی ہے اور یہاں تک کہ ہماری خلوت بھی ختم ہو گئی ہے۔
دیو بند مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے مولوی رحیم اللہ حقانی کا تعلق افغانستان کے پاکستان سے ملحقہ صوبہ ننگرہار سے تھا اور وہ کئی برسوں تک پشاور میں بھی مقیم رہے تھے۔واضح رہے کہ امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج نے لگ بھگ 20 برس تک طالبان کے ساتھ جنگ کی اور گزشتہ برس 15 اگست کو غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ایک سال کے عرصے کے دوران ہزاروں لڑکیوں کو ثانوی اسکولوں سے باہر کر دیا گیا ہے جب کہ خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں میں واپس آنے سے روک دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کی عالمی تنظیمیں طالبان کے طرزحکومت پر تنقید کرتی رہی ہیں۔دوسری جانب افغان عوام تسلیم کرتے ہیں کہ جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں تشدد کم ہو چکا ہے لیکن مالی مسائل نے انہیں مشکلات سے دو چار کر رکھا ہے۔قندھار سے تعلق رکھنے والے ایک دکان دار نور محمد کہتے ہیں کہ دکانوں پر آنے والے گاہک قیمتوں میں اضافے کی شکایت کر رہے ہیں اور اس صورت حال میں ہم دکان دار اپنے آپ سے نفرت کرنے لگے ہیں۔طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی کا کہنا ہے کہ ان کی نوزائیدہ حکومت نے پہلے مرحلے میں سیکیورٹی کی صورتِ حال کو بہتر کیا ہے اور اب امن، استحکام اور خوش حالی کی جانب بڑھنا شروع کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ایاز گل کو ایک انٹرویو کے دوران عبدالقہار بلخی کاکہنا تھا کہ تمام متعلقہ وزارتیں اپنی بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے مقامی کرنسی کے استحکام، ملازمتوں کے مواقع بڑھانے، تجارت اور دیگر کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس دوران طالبان اقتدار کے ایک سال کا سرسی جائزہ لینے کے لیے افغانستان جانے والے صحافیوں میں سے ایک نے بتایا کہ وہ فضائی حدود بند ہونے کے باعث پاکستان کے شہر پشاور سے براستہ طورخم افغانستان سرحد پر پہنچا تو وہاں اسے حراست میں لے لیا گیا اور یہ بتائے جانے پر کہ وہ ذبیح اللہ مجاہد کے ، جو افغان طالبان کے ترجمان ہیں، دعوت نامے پر آئے ہیں تو ان سے دعوت نامہ دکھانے کہا گیا۔ اس صحافی کے موبائل فون میں ذبیح اللہ مجاہد کا آڈیو پیغا م موجود تھا لیکن طالبان کمانڈر اس صوتی پیغام کو دعوت نامہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ذبیح اللہ مجاہد کو متعدد مرتبہ فون کال کرنے کی کوشش کی لیکن پتا چلا کہ وہ صوبہ پکتیکا میں کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے گئے ہیں اور وہاں موبائل سگنلز کام نہیں کر رہے۔ تین گھنٹوں کی مختصر حراست کے بعد بالآخر اجازت ملی اور عصر کے وقت کابل کی جانب اپنا سفر شروع کیا۔
راستے میں طالبان اہلکار جگہ جگہ چوکیوں پر موجود تھے جن کا رویہ دوستانہ تھا۔تاہم راستے میں بغیر پوچھے فوٹو گرافی کی اجازت نہیں تھی۔چھ گھنٹوں کے سفر کے بعد کابل میں داخل ہوا تو ہر جانب روشنیاں بکھری ہوئی تھیں۔دکانیں بند تھیں اور سڑکوں پر رش کم تھا۔ کچھ دوستوں نے بتایا کہ طالبان حکومت سے قبل دکانیں رات گئے تک کھلی رہتی تھیں۔ہوٹل پہنچنے پر ایک طالب سیکیورٹی اہلکار نے انگریزی زبان میں مخاطب ہو کر استقبال کیا۔ ان کے بولنے میں روانی اور لہجہ قطعاً افغان نہیں لگ رہا تھا۔ پوچھنے پر بتایا کہ انہوں نے ہالی وڈ فلمیں دیکھ کر انگریزی زبان سیکھی۔طالبان سیکیورٹی اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ انہیں ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے ان کی خدمات کے پیشِ نظر کھانا اور تنخواہ مل رہی ہے۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھے۔ کیوں کہ کابل کی گلیوں پر ڈیوٹیاں سر انجام دینے والوں کے مطابق وہ بلا معاوضہ کام کر رہے تھے۔قریبی بیٹھے دوسرے ساتھی نے بتایا کہ وہ صوبہ فرح سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ان کی دکان تھی۔ وہ مہینے میں تین چار مرتبہ طالبان کی کارروائیوں میں حصہ لیتے تھے اور کئی بار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ لیکن ٹھیک ہونے کے بعد پھر سے کارروائیوں کا حصہ بن جاتے جب کہ باقی ماندہ وقت اپنی دکان کو دیتے تھے۔