Abandoned US arms fueling militancy in Pakistan

پشاور (اے یو ایس )خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حال ہی میں عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ جس کے بعد یہ بحث ایک بار پھر ہونے لگی ہے کہ افغانستان سے امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج کے انخلا کے بعد عسکریت پسند تنظیموں کے ہاتھ جو اسلحہ لگا ہے، اس سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مقابلہ کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کا انخلا اگست 2021 میں مکمل ہوا تھا جس کے فوری بعد یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ اتحادی افواج افغانستان میں اربوں ڈالر کا جدید اسلحہ چھوڑ گئی ہیں جو بعد میں طالبان یا وہاں موجود عسکری گروہوں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ ان میں پاکستان میں سرگرم شدت پسند تنظیموں کے ارکان بھی شامل تھے۔اب پاکستان کے سیکیورٹی حکام اور سیاسی رہنما یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ افغانستان میں عسکری گروہوں کے ہاتھوں لگنے والا اسلحہ اور گولہ بارود پاکستان کے اندر حملوں میں استعمال ہو رہا ہے۔

اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے ایک برس بعد اگست 2022 میں امریکہ کے محکم? دفاع نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ کہہ کر ہلچل مچا دی تھی کہ اتحادی افواج نے سات ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کا اسلحہ اور فوجی ساز و سامان افغانستان کے حکومتی اداروں کو فراہم کیا تھا۔ اب اس اسلحے اور ساز و سامان کا مستقبل طالبان کے ہاتھ میں ہے۔رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ افغانستان میں چھوڑے گئے ساز و سامان میں چھوٹے بڑے ہتھیاروں اور بموں سے لے کر ہیلی کاپٹر تک شامل تھے۔اتنے بڑے پیمانے پر اسلحے کی موجودگی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد طالبان حکومت نے جنگجوؤں یا دیگر عسکری گروہوں کے ہاتھوں میں یہ ساز و سامان جانے کے خدشات کے سبب شہری علاقوں میں اسلحہ جمع کرنے کی مہم کا آغاز بھی کیا تھا۔ البتہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ طالبان کی یہ مہم کس قدر کامیاب ہوئی۔ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ اسلحہ پاکستان بھی پہنچ چکا ہے۔

افغانستان کی سیکیورٹی اور امن عامہ پر نظر رکھنے والی امریکہ میں رجسٹرڈ غیرسرکاری تنظیم افغان پیس واچ نے زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے لیے 2022 کے آخر میں تین افغان صوبوں ہلمند، قندہار اور ننگرہار میں ایک سروے کیا۔امریکہ اور نیٹو کے چھوڑے گئے اسلحے کا کاروبار زیادہ تر افغان صوبے ننگرہار میں ہوا۔اس سروے میں اتحادی افواج کے چھوڑے گئے جدید اسلحے بشمول نائٹ ویڑن تھرمل گن، ایم فور رائفل اور ایم-16 رائفل کی خرید و فروخت اور پاکستان اسمگلنگ کی تصدیق کی گئی تھی۔مقامی ذرائع نے بھی وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان کے بعض کمانڈرز اور جنگجوو¿ں ، سابق افغان حکومت کے حکام یہاں تک کہ سابق سیکیورٹی اہل کاروں نے بھی اسلحہ مقامی مارکیٹ میں فروخت کیا۔ ذرائع کا دعویٰ تھاکہ یہ اسلحہ نہ صرف عسکریت پسندوں نے خریدا بلکہ پاکستان بھی اسمگل ہوا۔افغان پیس واچ کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ امریکہ اور نیٹو کے چھوڑے گئے اسلحے کا یہ کاروبار زیادہ تر افغان صوبے ننگرہار میں ہوا جہاں سے پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں پشاور کی اسلحہ مارکیٹیں قریب ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *