(چھپرہ: (بہار): اب رفتہ رفتہ جو تصویریں سامنے آرہی ہیں ان سے یہ صورتحال واضح ہوتی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والا مرض ہندوستان میں تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ اب یہ کہنا یا سوچنا بھی ممکن نہیں کہ اس کی چپیٹ میں ہندوستان میں رہنے والا کوئی بھی شخص کب ، کہاں اور کس طرح اس سے متاثر ہو جائے گا۔

پچھلے کچھ دنوں میں ایک خاص بات یہ محسوس کی گئی کہ مسلمانوں کے اندر بھی اس مرض سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ریاستی حکومتوں اور پھر مرکزی حکومت کی ریاست بندی اور ملک بندی کے اعلان جے ساتھ ہی مسلمانوں کو مسجدوں اور درسگاہوں کو بھی بند کر دینا چاہیے تھا۔ لیکن یہ تبھی ہوا جب انتظامیہ نے سختی دکھائی۔ یہ افسوسناک پہلو ہے۔

ابھی بھی مسلم محلوں میں دلی، ممبئی، حیدرآباد سے پٹنہ تک جس قسم کی چہل پہل نظر آتی ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اب تک اس وبا کی ہلاکت سے سہمے نہیں ہیں۔

جے پرکاش یونیورسٹی، چھپرہ کے صدر شعبہ اردو، پروفیسر ارشد مسعود ہاشمی نے کہا کہ اب بھی موقع ہے کہ مساجد اور مسلم ادارے اس ضمن میں خدمت خلق انجام دے کرقوم وملت اور ملک عزیز کے لیے بھی اچھی مثال قائم کر سکتے ہیں۔ اگر ہندوستان کے سبھی دینی ، مذہبی ادارے یہ طے کر لیں اور ایک سرکولر جاری کر دیں کہ مساجد کو اس وبا سے متعلق بیداری پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ ایک بڑی بات ہوگی جس کی ہر سطح پہ پذیرائی کی جائے گی۔

مساجد سے اذانیں اب بھی ہوتی ہی ہیں، کچھ لوگ نماز کے لیے جاتے بھی ہیں۔ تو اس صورت میں اس کام کو انجام دینا مشکل نہیں ہے۔ دن بھر میں دو تین بار اگر مسجدوں سے حکومت اور طبی اداروں کے اعلانات یا پیغامات کو مائیک کے ذریعہ پیش کیا جائے تو ممکن ہے کہ بیداری کی سطح میں اضافہ ہو اور عام لوگ بھی اس وبا کے مہلک اثرات سے واقف ہو کر احتیاطی تدابیر اپنا سکیں۔ خمت خلق کا یہ ایک بہترین نمونہ ہو گا اور ہم جس طرح ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، شاید اس میں کچھ کمی بھی آجائے۔ (پریس ریلیز)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *