کابل: : افغانستان میں طالبان کی پابندی کے باوجود افغان کسان افیون کی کاشت جاری رکھیں گے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے افیون کی کاشت روکنے کے لیے کوئی واضح احکامات جاری نہیں کیے ہیں۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ خاندانوں کی کفالت کے لیے افیون کی کاشت کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افیون کی کاشت بہت آسان ہے اور اس میں پانی کی ضرورت بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ افیون کی کاشت بہت منافع بخش بھیہے۔
مغربی صوبے فراہ میں 52 سالہ کینور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران کہا کہ ان کے پاس افیون اگانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کیونکہ فصل کے بغیر ان کا خاندان بھوکا مر جائے گا۔ 10 بچوں کا باپ نور نہیں چاہتا کہ کسی کو اس کا پورا نام معلوم ہو کہ اس کو نور کہتے ہیں، نور کا کہنا ہے کہ اس کے خاندان کے پاس اب بمشکل ایک ماہ کا کھانا بچا ہے۔ نور کا کہنا ہے کہ گندم کی کاشت میں منافع بھی کم ہے اور اس کی کاشت افیون کی طرح آسان نہیں ہے۔وائس آف امریکہ نے مشرقی صوبہ ننگرہار میں رہنے والے ایک اور افغان کسان سید علی کے حوالے سے بتایا کہ افیون کے کھیتوں میں گندم یا مکئی کے مقابلے میں پانچ سے چھ گنا زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔
طالبان نے جب افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو اس کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ اب ملک میں افیون کی کاشت پر پابندی لگائی جائے گی۔ . تاہم گزشتہ ماہ مجاہد نے ایک انٹرویو کے دوران متضاد بیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ افغان عوام کو معاشی بحران کا سامنا ہے اور ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ منقطع کرنا اچھا نہیں ہوگا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگست میں طالبان کے قبضے کے بعد افیون کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں بھی آئی تھیں۔ پچھلے مہینے، اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم(یو این او ڈی سی) نے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کے فورا بعد مئی 2021 کے مقابلے میں افیون کی قیمتیں تقریبا دوگنی ہو گئیں۔