Afghan girls sit exams despite not attending schools for a yearتصویر سوشل میڈیا

کابل:(اے یو ایس ) طالبان کی حکومت نے ملک گیر پیمانے پر طالبات کے 12 ویں جماعت میں داخلے کے لیے امتحانات کرائے ۔ اس امتحان کو، جوکابل کے وقت کے مطابق صبح9تا دوپہر 1بجے منعقد ہوا، پاس کرنے والی طالبات کو ہائی اسکول ڈپلومہ مل جائے گا جس کی بنیاد پر وہ یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے اپلائی کر سکیں گی۔تاہم وزارت تعلیم نے نہ تو امتحانات کے حوالے سے کوئی تفصیل بتائی اور نہ ہی یہ بتایا کہ یہ امتحانات دینے والی طالبات کی تعداد کتنی تھی۔ نیز میڈیا کو بھی ان اسکولوں کے قریب نہیں جانے دیا جہاں امتحانات منعقد کیے گئے تھے۔کابل کے ایک اسکول کی پرنسپل نے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کو بتایا کہ ا±نہیں یہ بتایا گیا تھا کہ بارہویں جماعت کی طالبات کے پاس 14 مضامین کے امتحان کی تیاری کے لیے صرف ایک دن ہو گا جب کہ ہر مضمون کے 10 سوالات ہوں گے۔

سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر نام نہ بتانے کی شرط پر مذکورہ پرنسپل نے بتایا کہ کئی طالبات کے پاس تو درسی کتب تک نہیں ہیں۔ لہذٰا ایسے امتحان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس امتحان کے حوالے سے طالبات اور خواتین اساتذہ کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حجاب یا ہیڈ اسکارف پہن کر آئیں جب کہ موبائل فون ساتھ لانے پر پابندی ہو گی۔تاہم گزشتہ ڈیڑھ برس سے اسکول نہ جاپانے والی طالبات نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ساتویں سے بارہویں جماعت تک کی طالبات کے اسکول جانے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔قبل ازیں اس امتحان کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ طالبان کی وزارت تعلیم کی دستیاب دستاویزات کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق افغانستان کے 34 میں سے 31 اضلاع پر ہو گاجہاں رواں ماہ کے اختتام پر سردیوں کی چھٹیوں کاآغاز ہو جاتا ہے۔کابل میں محکمہ تعلیم کے سربراہ احسان اللہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ یہ امتحانات بدھ کو ہوں گے، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان امتحانات میں کتنی طالبات شریک ہوں گی۔

طالبان حکومت کے وزیرِ تعلیم حبیب اللہ آغا کی دستخط شدہ دستاویز کے مطابق قندھار، ہلمند اور نمروز کے سوا ملک کے دیگر 31 صوبوں میں یہ امتحانات ہوں گے۔ ان تین صوبوں میں یہ امتحان تعلیمی سال کے ٹائم ٹیبل میں فرق کی وجہ سے بعد میں ہو گا۔کابل کی رہائشی بارہویں جماعت کی ناجلہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ یہ بہت مضحکہ خیز ہے، وہ گزشتہ ڈیڑھ برس سے خوف اور وحشت کے سائے میں جی رہی ہیں اور اپنی درسی کتب کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکیں۔ا±ن کے بقول طالبان نے گزشتہ ڈیڑھ برس سے سیکنڈری اسکول بند کر رکھے ہیں تو ہمارے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم یہ امتحان دے سکیں۔ طالبان نے گزشتہ برس اگست میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبات کے لیے مڈل اور ہائی اسکول بند کر دیے تھے جب کہ کئی سرکاری اور نجی اداروں میں خواتین کی ملازمتیں بھی محدود کر دی تھیں۔افغان طالبان نے عوامی مقامات پر خواتین کے لیے پردہ بھی لازمی قرار دیا تھا جب کہ تفریحی پارکس، جم اور دیگر تفریحی مقامات بھی خواتین کے لیے بند کر دیے تھے۔البتہ افغان طالبان نے یونیورسٹی کی سطح پر خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد نہیں کی تھی۔حکام کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو طالبات اس امتحان میں شرکت نہیں کر پائیں گی، انہیں مارچ کے وسط میں ایک اور موقع دیا جائے گا۔طالبان کو اقتدار میں آنے کے بعد لرکیوں کی تعلیم پر پابندی اور خواتین کے حوالے سے سخت اقدامات پر عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *