واشنگٹن : جنوبی افغان صوبے قندھار کے صحافیوں نے کہا ہےکہ میڈیا اور صحافیوں کو نشانہ بنا کر طالبان کی وسیع پیمانے پر پابندیوں کے باعث ان کے لیے صحافتی ذمہ داریاں نبھانا اور خبریں حاصل کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔قندھار کے ایک مقامی اخبار کے ایڈیٹر نے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام صیغ راز میں رکھنے کی استدعا کرتے ہوئے بتایا کہ اگر ہم ایک بائیک کی چوری کی بھی فیس بک پر کوئی خبر ڈال دیں تب بھی ہمیں دھمکیاں موصول ہوتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت سے لے کر ڈسٹرکٹ پولس سربراہ تک کے اعلیٰ سطحی طالبان عہدیداران ہم سے معلوم کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ خبر فیس بک پر کیوں شئیر کی۔
صوبے میں کئی برسوں سے کام کرنے والے ایک صحافی نے طالبان کی بندشوں کو غیر معملوی اور نہایت سخت بتایا اور کہا کہ طالبان صوبے میں صحافیوں کے لیے کام کرنا ناممکن بنا رہے ہیں۔اس ایڈیٹر نے مزید کہا کہ وہ (طالبان) چاہتے ہیں کہ صرف وہی مواد شائع کیا جائے جو حکومت کی جانب سے انہیں مہیا کیا جائے۔علاوہ ازیں صحافیوں کو سلامرتی کے حوالے سے ہونے والے صوبے میں کسی بھی حادثہ یا سانحہ کی خبر نگاری کی اس وقت تک اجازت نہیں دی جا تی جب تک خود طالبان ہی انہیں اس کی رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہ دے دیں۔اس ایڈیٹر نے کہا کہ خود سنسر شپ اب عام بارت ہو گئی ہے۔ ابھی تک ہم جن موضوعات پر بے دھڑک اور بلا تکلف لکھ دیا کرتے تھے اب ہم انہیں کور کرنے کی بابت سوچ بھی نہیں سکتے۔
ماہ فروری میں قندھار میں ایک خاتون کو گولی مار ے جانے کے بعد مقامی لوگوں کے احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے صحافی نے کہا کہ طالبان نے اس معاملہ کی کورج کی اجازت نہیں دی۔ واضح ہو کہ چند ہفتہ پہلے ہی رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز(آر ایس ایف )نے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اقوام متحدہ کے نمائندے رچرڈ بینیٹ کو اپنے ایک مکتوب میں، افغانستان میںجہاں صحافیوںکی من مانی گرفتاریاں عروج پر ہیں اور ان کے لیے نامساعد حالات ہیں، صحافیوں اور آزادی صحافت کے تحفظ کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اور کہا تھا کہ تمام ذرائع ابلاغ کو خوف نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔رچرڈ بینیٹ کو 27 مارچ کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کا نمائندہ مقرر کیا گیا تھا۔
