اسلام آباد:(اے یو ایس )افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر خاردار باڑ لگانے کا تنازع ایک بار پھر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔پاکستان کی فوج کی نصب کردہ خاردار باڑ کو مبینہ طور افغان طالبان کے مسلح اہلکاروں کے اکھاڑنے کا واقعہ گزشتہ ہفتے بھی پیش آیا ہے اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ خار دار تار افغانستان کی حدود میں لگائی گئی تھی۔
اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افغانستان میں ’پڑواک نیوز ایجنسی‘ کے سابق مدیر اور کے صوبہ ننگرہار سے تعلق رکھنے والے جاوید حمیم کاکڑ کا کہنا ہے کہ افغان عوام ڈیورنڈ لائن کے معاملے میں بہت حساس ہیں۔ اس لیے وہ ہر اس اقدام کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں جس کے تحت اس سرحد کو مستقل بارڈر بنایا جا رہا ہو جسے وہ سرحد کے دونوں جانب آباد قبائل کی تقسیم قرار دیتے ہیں۔جاوید حمیم کاکڑ کے مطابق 1893 میں انگریز دور میں ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگرچہ پاکستان نے اسے افغانستان کے ساتھ مستقل سرحد کے طور پر قبول کر لیا ہے تاہم افغانستان نے کبھی بھی اسے عالمی سرحد تسلیم نہیں کیا۔ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تنازعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں اطراف آباد قبائل کی جغرافیائی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ ان کی رشتہ داریا تو ہیں ہیں اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر ان کا کاروبار بھی اسی سرحد کے ذریعے ہوتا ہے۔دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان سرحد سے متصل 2600 کلومیٹر پر محیط سرحد پر 90 فی صد تک باڑ لگانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے جس کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔امریکہ کے اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ سے وابستہ صحافی حق نواز خان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ہمیشہ سے اتار چڑھاو¿ دیکھنے میں آیا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ سرحد پر رونما ہونے والے واقعات کا تعلق کابل میں قائم حکومت سے نہیں ہوتا۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حق نواز خان نے بتایا کہ پاکستان کو یہ توقع تھی کہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سرحدی تنازعات میں کمی ہو گی البتہ طالبان کے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے اگلے ہی روز وزیرستان سے ملحقہ برمل کے علاقے میں دونوں اطراف سے جھڑپوں کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسی طرح مہمند، باجوڑ اور حتیٰ کہ چمن کی سرحد پر بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے ان واقعات کی شدت میں اس وقت اضافہ ہوا تھا جب سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر ویڈیوز وائرل ہوئیں جس میں طالبان کو خاردار تار اکھاڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔اس حوالے سے پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت اور طالبان کی جانب سے کوئی باضابطہ رد عمل سامنے نہیں آیا۔ان واقعات کے بعد پاکستان کا کہنا تھا کہ سرحد پر پیش ہونے والے واقعات کو طالبان کی اعلیٰ قیادت کے سامنے اٹھایا گیا۔ معاملات آپس میں حل کر لیے گئے ہیں۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان سرحد پر دہشت گردی کی کارروائیاں میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔
طالبان نے بار بار یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین کسی دہشت گردی کی کارروائی کے لیے استعمال نہیں ہوگی البتہ گزشتہ چند ماہ کے دوران تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے جب کہ اس تنظیم کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔رپورٹس کے مطابق افغان طالبان کی مداخلت پر پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان معاملات کو افہام تفہیم کے ساتھ حل کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز بھی ہوا تھا البتہ رواں ماہ کی نو تاریخ کو ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کیا جس کے بعد سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں شدت آ گئی ہے۔