قادر خان یوسف زئی
افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی آخری ریڈ لائن سے پہلے ہی ہو گئی ، امریکہ نے خدشات ظاہر کئے کہ کابل میں دہشت گرد حملوں کا خطرہ برقرار ہے ، یورپ سمیت دنیا بھر کے ممالک نے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔ اپنے وطن سے ترقی یافتہ ممالک ہجرت کرنے والوں کے آنسو دیکھے کہ انہیں40برس سے تباہ حال افغانستان چھوڑنے کا افسوس ہے ، کئی خواتین ، نوجوانوں اور متعدد شعبوں سے وابستہ افراد کے ٹوئٹر پر دکھ بھرے پیغامات پڑھ پڑھ کر سوچ میں پڑ گیا کہ یہ سب کابل میں افغان طالبان کے داخلے کے بعد ہی کیوں ہورہا ہے ، افغان طالبان تو کابل سے قبل 29صوبوں کا مکمل کنٹرول حاصل کرچکے تھے ، لیکن کوئی بھی کچھ نہیں کہہ رہا تھا ، یہ ضرور کہ خوف زدہ تھے کہ کہیں افغان طالبان ، کابل پر حملہ نہ کردیں ، یہ کابل کے گرد و نواح بھی پہنچ گئے ، بیا ن بھی سامنے آگیا کہ ابھی کابل میں داخل نہیں ہوں گے ، لیکن اچانک اشرف غنی سمیت پارلیمان کے بیشتر اراکین ، افغان سیکورٹی فورس سمیت سب کابل سے نکل گئے ، پھر اچانک وہ سب کچھ ہوا کہ اس کی توقع بادی ¿ النظر افغان طالبان بھی نہیں کررہے تھے ، اس لئے انہیں ” مجبورا“ کابل کا کنٹرول سنبھالنا پڑ گیا ۔ مجھے بھی نہیں معلوم کہ 31اگست کے بعد کیا ہوگا،بلکہ کسی کو بھی نہیں معلوم ، یہاں تک کہ افغان طالبان بھی نہیں جانتے کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا ، صرف اندازہ ہی لگاتے ہیں ، ہر دن لمحوں میں صورت حال یوں بدلتی ہے کہ سارے اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ، یورپ نے کابل ائیر پورٹ کے المیے پر افسوس ظاہر کیا تو امریکہ نے اگلے دن ہی افغانستان کے تمام اثاثے منجمد کردیئے ، عالمی مالیاتی اداروں نے امداد معطل و منسوخ کردیئے ۔
امریکہ کہنے لگاکہ داعش حملہ کرے گا ، پھر دو دن بعد حملہ بھی ہوگیا ، سینکڑوں لوگ جان سے گئے اور زخمی ہوئے ، امریکہ نے بدلہ لینے کا اعلان کیا ، پسند کی جگہ پر اپنی مرضی کا حملہ اور پھر داعش خراساں کا مبینہ’ ماسٹر مائنڈ‘ مار دیا گیا ، ایک نہیں بلکہ دو مارے ، ایک زخمی ہوا ، پھر کابل میں دوبارہ حملہ کیا ، ایک پورا خاندان پانچ بچوں سمیت آناََ فاناََ ہلاک ہوگئے ۔ یہ ڈرون کہاں سے آئے ، کس ملک کی فضائی حدود سے گذرا ، اجازت لی کہ نہیں ، دنیا کو کچھ نہیںمعلو م ، معلوم ہے تو صرف امریکہ کو ۔ جس نے ماننا ہو تو مانے ، نہیں مانتا تو اُس کی مرضی ، کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ، جیسا کہ افغان طالبان نے نجی نیوز چینل کے ایک پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ”(کالعدم) تحریک طالبان پاکستان، افغانستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا مسئلہ ہے، اس لیے اس حوالے سے حکمت عملی بنانا بھی پاکستان کا کام ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستان کا مسئلہ،جنگ کے جواز اور عدم جواز کا فیصلہ وہاں کے علماءکریں۔“ افغان طالبان تو کب سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کا مسئلہ ہمارا ہے ، ہم جانیں اور ہمارا کام ، لیکن اب انہیں اقتدار حاصل کرنے کے بعد مجھے تو یقین ہوگیا ہے کہ افغان طالبان بھی ہمارا مسئلہ نہیں، وہ جانیں اُن کا کام جانے۔حکومت نے امریکہ کو ائیر بیس نہ دینے کا اعلان کیا تھا ، ہم نے بھی یقین کیا کہ ریاست امریکہ کے لئے مزید قربانی کا بکرا نہیں بنے گی ، اب افغانستان جانے اور اُس کا کام جانے ، لیکن پھر غیر متوقع خبر آئی کہ غیر ملکیوں ’وغیرہ ‘کو ایک ماہ کا ٹرانزٹ ویزہ دے دیا گیا ، راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہوٹلوں میں غیر ملکی فوجیوں کو ٹھہرا گیا ، کراچی اور لاہور کو اسینڈ بائی رکھا ہوا ہے ، لیکن یہ فیصلہ کس نے اور کب کیا ، کسیکو بھی اس کا علم نہیں ، لیکن اتنا سب جانتے تھے کہ ریاست پر دباﺅ ہے اور پھر حکومت بھی عالمی دباﺅ کتنا برداشت کرسکتی تھی ، اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔
افغانستان کے اور بھی تو پڑوس ممالک ہیں ، اُن پر تو کوئی دباﺅ نہیں ، کوئی کچھ نہیں کررہا ۔ اب عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ افغان طالبان کے لئے وزیراعظم کتنی آواز اٹھا رہے ہےں ، پاکستان نے افغانستان کے لئے کتنی قربانیاں دیں ، لیکن کوئی مانے تو ، اب امارت اسلامی ایک بار پھر افغانستان کے کرتا دھرتا ہیں ،تو انہیں ائیر پورٹ چلانے کے تکنیکی عملے کی ضرورت تھی تو اُنہیں اپنے کسی پڑوسی ملک کا خیال نہیں آیا ، بلکہ سات سمندر دور ترکی کو یاد کیا ، اُن سے طویل مذاکرات کئے، ترکی نے اپنی شرائط نہ ماننے پر دو ٹوک انکار کردیا۔ وزیراعظم کی خارجہ پالیسی سمجھ سے باہر ہے کہ ایک جانب افغان طالبان کو بھی اپنا فیورٹ قرار نہیں دیتے، لیکن عبوری حکومت کے قیام سے قبل دنیا سے مطالبے اور اپیل بھی کی جا رہی ہے کہ اُن کی مدد کی جائے ، درحقیقت مجھ ایسے کئی لکھاری بھی سمجھنے سے قاصر رہے کہ افغان طالبان کی حمایت کرنی چاہے یا افغانستان کی ؟۔درحقیقت ہمیں زمینی حقائق کے مطابق پہلے افغانستان کی حمایت کو ترجیح دینی چاہے ، افغانستان کے عوام کے لئے اپنی آواز اٹھانی چاہے ، کسی ایک فریق کو اپنا فیورٹ بنا کر اپنی غیر جانب داری کو مشکوک بنانے سے گریز کرنا ہوگا، جس طرح افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ٹی ٹی پی ، پاکستان کا مسئلہ ہے ، تو افغانستان کا مسئلہ ، وہاں کے عوام اور اُن کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کا مسئلہ ہے ، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ، اتنے بھی غافل نہیں کہ سمجھ نہ سکیں کہ افغانستان میں ابھی بھی گریٹ گیم کھیلی جا رہی ہے ، اشرف غنی کا صدارت سے استعفیٰ ابھی تک سامنے نہیں آیا، افغانستان کا آئین ختم نہیں ہوا۔ اس وقت بھی اشرف غنی جلا وطن صدر ہیں ، مغرب کے لئے ترپ کا پتا ہیں کہ انہیںجب چاہیں ، جس وقت جس طرح چاہیں کھیل سکتے ہیں۔ افغانستان کی پارلیمان اراکین کی بڑی تعداد جلا وطن ہے ، کسی نے استعفیٰ نہیں دیئے ، یہاں تک کہ کابل میں موجود ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا ۔ اس صورت حال میں امریکہ اور ان کے اتحادیوں پر قطعی اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ،مستقبل میں اپنے مفادات پورے نہ ہونے پر کس شکل میں واپس آئیں گے ۔ کیونکہ دنیا جانتی ہیں کہ امریکہ جہاں جاتا ہے وہاں سے واپس نہیں آتا ۔