کابل: افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ، صورتحال کتنی خوفناک ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی لڑکیوں کو افغانستان سے باہر نکالنے کے لیے کئی والدین نے ان کی شادی کابل ایئرپورٹ کے باہرہی کرادی کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ لڑکیاں طالبان کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جائیں گی۔شاشدی کرانے کے یہ واقعات 30 اگست سے پہلے پیش آئے تھے۔ متحدہ عرب امارات میں موجود امریکی حکام نے وزارت خارجہ کو ان معاملات سے آگاہ کیا۔ محکمہ خارجہ نے محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی اور ڈیفنس سے کہا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ چوکنا رہنے کو کہا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس طرح کے کتنے کیس درج ہوئے اس کے بارے میں کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ تاہم ، متحدہ عرب امارات میں مقیم امریکی سفارت کار اب گہری تحقیقات کر رہے ہیں۔ ان لڑکیوں کی شناخت کی جا رہی ہے کیونکہ یہ انسانی اسمگلنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق اس نے براہ راست انسانی سمگلنگ کے ایک معاملے پر غور کیا ہے۔ بے شک افغان والدین یا لڑکیوں نے یہ قدم طالبان کی جبر کی انتہائی مجبوری اور تاریخ کے پیش نظر اٹھایا ہے۔ پہلا کیس متحدہ عرب امارات میں سامنے آیا۔ معلومات کے مطابق افغانستان سے نکالے گئے زیادہ تر لوگوں کو امریکہ نے دوسرے ممالک میں واقع پناہ گزین کیمپوں میں رکھا ہوا ہے۔ یہاں قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد انہیں مختلف ممالک اور امریکہ بھیجا جائے گا۔ اس کے بعد قوانین کے تحت مہاجر یا شہری کا درجہ دیا جائے گا۔متحدہ عرب امارات میں تحقیقات کے دوران کچھ لڑکیوں نے امریکی حکام کو بتایا کہ ان کے والدین نے انہیں کابل ایئر پورٹ کے باہر شادی کرنے پر مجبور کیا تھا۔ ان لڑکیوں کے مطابق ان کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ وہ طالبان کے دور حکومت میں ملک میں رہیں کیونکہ یہ طالبان کے ظلم کا شکار ہو سکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان میں سے کچھ معاملات حیران کن ہیں۔ ان میں ، لڑکیوں کے والدین یا خاندان نے ائیر پورٹ کے باہر ایسے لوگوں یا لڑکوں کی تلاش کی جن کے پاس ملک چھوڑنے کے سرکاری دستاویزات تھے۔ والدین نے ان لوگوں کو بھاری رقم دی تاکہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی کر سکیں اور اس طرح لڑکیاں ملک سے نکل جائیں۔کچھ معاملات میں لڑکوں نے پیسے لیے اور ان لڑکیوں کو اپنی بیویاں بتائیں اور پھر انہیں افغانستان سے باہر پہنچادیا۔ واضح رہے کہ طالبان جب پہلی بار 1996 اور 2001 کے درمیان اقتدار میں رہے تھے تو اس دوران اس کے ظلم کا سب سے زیادہ شکار خواتین اور لڑکیاں ہی تھیں۔ا سکول اور کالج بند کر دیئے گئے تھے ۔برقعہ پہننا ہوتا تھا۔محرم کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ کئی لڑکیوں سے طالبان نے زبردستی نکاح کر لیا۔ اگرچہ اس بار طالبان شریعت کے مطابق خواتین کے حقوق کا حق دینے کا وعدہ کر رہے ہیں ، لیکن اس قسم کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ افغان عوام کو ان کی باتوں پر اعتماد نہیں ہے۔