کابل: افغان علمائے دین اور خواتین اساتذہ نے امارت اسلامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ درجہ ششم سے آگے کی لڑکیوں کے اسکول کی تعلیم کے حوالے سے منعقد ہونے والے اجتماع میں خواتین کو بھی شامل کریں۔ قبل ازیں امارت اسلامیہ کے ایک سینئر رکن انس حقانی نے جنوب مشرقی صوبہ خوست میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کے اسکولوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مستقبل قریب میں علما اور ماہرین کا اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
متوقع اجتماع کا افغان علما اور تعلیمی کارکنوں نے خیر مقدم کیا۔ ایک عالمہ جمیلہ افغانی نے کہا کہ طالبان کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر ان کا فتویٰ (فیصلہ) منفی ہے، تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ لوگوں میں ان کا اعتماد متزلزل ہو گا۔۔ایک استاد حکمت اللہ میر زادہ نے کہا کہ ہماری زندگی بکھر گئی ہے۔ کئی مہینے ہو گئے ہیں کہ مجھے تنخواہ نہیں دی گئی اور مجھے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ دریں اثنا، کارکنوں نے علما سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامی اقدار کی بنیاد پر لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کے بارے میں غیر جانبدارانہ فیصلہ کریں۔
خواتین کے حقوق کی کارکن نویدہ خراسانی نے کہا کہ خواتین کو ایسی محفلوں میں شامل کیا جانا چاہیے کیونکہ وہ خواتین ہیں اور خواتین کے درد کو سمجھتی ہیں۔ خواتین کی موجودگی کے بغیر یہ اجتماع بے معنی ہے اور کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ وزارت تعلیم نے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کے منصوبے کا اعلان موجودہ افغان حکومت کی کابینہ کی طرف سے حتمی شکل دینے کے بعد کیا جائے گا۔ چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات کے ا سکولوں کو بند کیے جانے پر اندرون و بیرون ملک شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
