Afghanistan: Who are the leaders of the Talibanتصویر سوشل میڈیا

باوجود اس کے کہ تحریک اسلامی طالبان گذشتہ چوتھائی صدی سے صرف طالبان نام سے افق سیاست پر نظر آرہے ہیں اور وہ پانچ سال تک ملک کا نام امارت اسلامیہ افغانستان رکھ کر اس پر حکمرانی بھی کر چکے ہیں لیکن اس کی قیادت کے حوالے سے کوئی تفصیلی معلومات نہیں رکھتا اور نہ ہی کوئی قیادت کی تفصیلات منظر عام پر لا سکا کیونکہ روز اول سے ہی ان کی قیادت راز داری سے کام کر رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ 1994میں چند طلبا پر مشتمل تحریک اسلامی طالبان کے نام سے ظہور پذیر ہونے والی تنظیم ،جو اپنے کٹر مذہبی خیالات کے باعث انتہاپسند کہلائی ،ایک بار پھر افغانستان پر قابض ہو چکی ہے ۔ اگرچہ1996میں جب یہی لوگ بر سر اقتدار آئے تھے تو یہ کسی کو بھی اپنے حکومتی امور سے آگاہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی میڈیا کے نمائندوں کو اپنی داخلہ، خارجہ یا معاشی پالیسی سے متعارف نہیں کراتے تھے۔ لیکن اس بار یہی طالبان کچھ بدلے بدلے سے دکھائی دے رہے ہیں ۔اور ان کی قیادت نے نہ صرف میڈیا کے نمائندوں بلکہ خاتون ٹی وی اینکروں تک کو انٹرویو دے کر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے یہ قیادت وہ نہیں ہے جسے سخت گیر قیادت سے موسوم کیا جاتا تھا ۔اور جو اپنی ہر پالیسی یہاں تک کہ اعلیٰ قیادت کے حوالے سے تفصیل بھی صیغہ راز میں رکھتی تھی۔تاہم اس وقت طالبان کی جو قیادت ہے اس میں ہیبت اللہ اخونزادہ،ملا برادر ، سراج الدین حقانی اور طالبان کے بانی سربراہ ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب جیسے بڑے نام شامل ہیں۔

رہبر اعلیٰ ہیبت اللہ اخوانزادہ شیخ مولوی محمد خان کے صاحب زادے اور مولانا خدائے رحیم صاحب کے پوتے ہیں۔ 1994 میں دار الحکومت کابل مجاہدین کے ہاتھوں فتح ہوا تو شیخ صاحب کو امیرالمو¿منین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے خصوصی فرمان پر فوجی عدالت کا سربراہ متعین کیا گیا۔ کابل میں فوجی عدالت کی تجدید اور اس میں مطلوبہ اصلاحات کے بعد مشرقی علاقوں میں فوجی عدالت کی ذمہ داری اِنہیں سونپی گئی۔ مشرقی علاقوں، خصوصا ننگرہار میں فوجی عدالت سے متعلق دو سالہ کارکردگی کے بعد امیرالمو¿منین ملا محمد عمر مجاہد کے حکم پر کابل آئے اور یہاں امارت اسلامیہ کے دورِ حکومت کے آخر تک فوجی عدالت کے ذمہ دار کی حیثیت سے رہے۔بعد ازاں انہیں ملا اختر محمد منصور کی، جنہیں ملا محمد عمر کی وفات کے بعد امیر مقرر کیا گیا تھا، امریکی ڈرون حملے میں موت کے بعد طالبان کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، طالبان کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔مذکورہ عہدے پر فائز کیے جانے سے قبل ہیبت اللہ ایک مذہبی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے، انہیں عسکری کمانڈر سے زیادہ روحانی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہیبت اللہ بلاوجہ بیانات جاری نہیں کرتے بلکہ صرف مذہبی تہواروں پر ہی ان کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ایک اور قائد عبدالغنی برادر ہیں جن کی پرورش افغانستان کے علاقے قندہار میں ہوئی اور یہ علاوہ طالبان کی جائے پیداش بھی ہے۔

دیگر افغانوں کی طرح ان کی زندگی کا بیشتر حصہ بھی 1970 میں روسیوں کے قبضے کے بعد مزاحمت کار کے طور پر گزرا، انہوں نے ملا عمر، سابق طالبان سربراہ اور تنظیم کے بانی، کے ساتھ کئی محاذوں میں حصہ لیا۔دونوں نے مل کر 1990 میں طالبان کی بنیاد رکھی جس کا مقصد ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور افراتفری کو ختم کرنا تھا، جو روسیوں کی پسپائی کے بعد ملک میں وسیع پیمانے پھیل گئی تھی۔امریکی حملے اور طالبان کی حکومت کے اختتام پر 2001 میں وہ اس مختصر مزاحمت گروپ کا حصہ تھے جنہوں نے حامد کرزئی کی حکومت کے ساتھ کام کیا اور ایسا ایک معاہدے کے بعد ہوا تھا۔خیال رہے کہ 2010 میں پاکستان نے ملا برادر کو گرفتار کرلیا تھا اور 2018 میں امریکا کی جانب سے ان کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباو¿ ڈال گیا تھا، رہائی کے بعد وہ قطر منتقل ہوئے۔قطر منتقل ہونے پر ملا برادر کو طالبان کے سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کیا گیا اور اس دوران انہوں نے امریکا سے کامیاب امن معاہدہ بھی کیا۔اعلیٰ قیادت میں شامل تیسری شخصیت سراج الدین حقانی کی ہے جو روس کے خلاف مزاحمت کرنے والے سابق کمانڈر جلال الدین حقانی کے بیٹے ہیں۔

واضح رہے کہ حقانی نیٹ ورک کو امریکا نے عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔یہ نیٹ ورک خود کش حملوں کے لیے جانا جاتا ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ گروپ کئی سالوں تک کابل میں ہونے والے انتہائی خطرناک حملوں میں ملوث رہا ہے۔علاوہ ازیں مذکورہ گروپ پر افغان حکومت کے اہم عہدیداروں کے قتل اور اغوا کا بھی الزام لگایا جاتا رہا ہے۔قیادت گروپ کے چوتھے فرد ملا یعقوب ہیں۔ یہ طالبان کے سابق اور بانی سربراہ ملا عمر کے بیٹے ہیں۔ملا یعقوب طالبان کی طاقت ور ترین عسکری شوریٰ کے سربراہ ہیں، جو فیلڈ میں موجود کمانڈرز کی رہنمائی کرتی ہے اور انہیں جنگ کی حکمت علمی سے متعلق ا?گاہ کرتی ہے۔ان کے نسب اور والد سے تعلق کے باعث انہیں طالبان جنگجوو¿ں کے درمیان بہت اہمیت حاصل ہے۔خیال رہے کہ اس قسم کی خبریں بھی گردش کرتی رہی ہیں کہ انہیں قیادت دینے کے حوالے سے جنگجوؤں کے درمیان چپقلش بھی ہوئی تھی جبکہ کچھ ماہرین نے زور دیا ہے کہ 2020 تک ان کا کردار صرف نمائشی تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *