کابل:(اے یو ایس ) افغانستان کے صوبے پنجشیر کو فتح کرنے کے طالبان کے دعوے کے باوجود مزاحمتی محاذ کے سربراہ احمد مسعود مزاحمت جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ وائس آف امریکہ کے لیے عائشہ تنظیم کی رپورٹ کے مطابق طالبان کا کہنا ہے وادءپنجشیر کے لیے زمینی راستہ اب کھل گیا ہے جہاں اب خوراک اور دیگر ضروری اشیا پہنچائی جا سکتی ہیں۔ البتہ بجلی، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز جلد بحال ہو جائے گی۔طالبان کی جانب سے یہ اعلان وادءپنجشیر کا کنٹرول حاصل کرنے کے دعوے کے بعد کیا گیا تھا۔لیکن طالبان مخالف مزاحمتی محاذ کے سربراہ احمد مسعود نے اپنے فیس بک پیج پر ایک آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ان کی فورسز اب بھی پنجشیر میں موجود ہیں جو طالبان سے لڑائی جاری رکھیں گی۔اس سے قبل مزاحمتی محاذ کے حامی ٹوئٹر اکاو¿نٹس سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کے جنگجو دوبارہ منظم ہونے کے لیے پہاڑوں کی طرف لوٹ رہے ہیں اور یہ لڑائی جاری رہے گی۔
پیر کی شام ایک ٹوئٹ میں مزاحمتی محاذ کے حامی اکاؤنٹس سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ شب دشمن کے شدید حملے اور ختم ہوتے اسلحے کو دیکھتے ہوئے ہم نے سخت فیصلے کیے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان کے خلاف مزاحمت کے دوران ان کے پاس دو آپشنز تھے جن میں صوبائی دارالحکومت بازارک میں قیادت کے مکمل خاتمے یا بڑے پیمانے پر مزاحمت کرنا شامل تھا۔ بیان میں مطابق آئندہ کی حکمتِ عملی کے تحت مزاحمت کے آپشن کا انتخاب کیا گیا ہے۔مزاحمتی محاذ کے حامی اکاو¿نٹس سے کی گئی دیگر ٹوئٹس میں کہا گیا ہے کہ ان کے رہنما محفوظ اور پرعزم ہیں۔ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ ہم ایسے مقام پر ہیں جسے ہم جانتے ہیں اور ہماری مزاحمت کے اگلے باب کے لیے بہترین ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ مزاحمتی محاذ کے سربراہ احمد مسعود کے پنجشیر سے فرار ہونے کی بھی اطلاعات تھیں تاہم اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی۔ احمد مسعود نے حال ہی میں اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ وہ پنجشیر میں ہی موجود ہیں۔
احمد مسعود 1990 کی دہائی میں طالبان کے خلاف کامیاب مزاحمت کرنے والے شمالی اتحاد کے رہنما احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے ہیں۔ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ‘اللہ کا شکر ہے کہ پنجشیر پر قبضے اور فتح کی ہماری لڑائی میں کسی شہری کی ہلاکت نہیں ہوئی۔’ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں مزاحمت میں شامل افراد جو معمول کی زندگی کی طرف واپس آنا چاہتے ہیں انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ لیکن طالبان کی نئی حکومت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں غداری تصور ہوں گی اور اس سے اسی کے مطابق نمٹا جائے گا۔طالبان نے صوبائی دارالحکومت اور وادی میں گورنر کے کمپاو¿نڈ کا کنٹرول حاصل کرتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کی ویڈیوز شیئر کی تھی۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد حکومت سازی میں تاخیر سے متعلق کہتے ہیں نئی حکومت کی تشکیل کا کام مکمل ہو گیا ہے۔ لیکن کچھ تکنیکی مسائل باقی ہیں جس کی وجہ سے اعلان میں تاخیر ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے وزار کو قائم مقام وزرا تصور کیا جاسکتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر حکومت ان کو تبدیل کرسکے۔ انہوں نے صحافیوں کو یقین دلایا کہ طالبان سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ زندہ ہیں اور وہ جلد عوام کے سامنے آئیں گے۔ملا ہیبت اللہ کی غیرموجودگی نے ان کی موت کی افواہوں کو بڑھاوا دیا تھا۔ واضح رہے کہ طالبان کے بانی ملا عمر کی موت کی خبر 2015 میں سامنے آنے سے دو سال قبل ہی ان کا انتقال ہو چکا تھا۔