علی گڑھ :شہدائے کربلا کی یاد میںہر سال کی طرح اس سال بھی بزمِ نوید سخن علی گڑھ کی جانب سے اور استاذا لشعراءڈاکٹر الیاس نوید گنوری کی سر پرستی میں حسینیہ زہرا کیلا نگر سول لائنس علی گڑھ میں ایک آل انڈیا طرحی مسالمے کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ”نہ جانے کتنی بلندی پہ سر حسینؑ کا ہے“ اور”سجدوں میں لاجواب ہے سجدہ حسینؑ کا“مصرعوں پر مقامی و بیرونی شعراءنے اپنا منظوم طرحی کلام پیش کیا ۔پروگرام کی صدارت پروفیسر شاہ محمد وسیم نے کی جب کہ مہمانانِ ذی وقار کی حیثیت سے معروف صحافی عالم نقوی نے اور ڈاکٹر شجاعت حسین نے شرکت کی اس موقع پربزم کی جانب سے مولانا ڈاکٹر اصغر اعجاز قائمی جلالپوری اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ¿ دینیات کو میر انیس اوارڈ اور آفتابِ سخن کے خطاب سے نوازا گیا جب کہ ڈاکٹر کیفی سنبھلی کو مرزا دبیر اوارڈ اور ماہتاب سخن کا خطاب دیا گیا ۔پروگرام کی نظامت کے فرائض مولانا ڈاکٹر اصغر اعجاز قائمی نے بحسن وانجام دئیے۔
قا رئین کے لئے منتخب مسالمے میں پیش کئے گئے منتخب اشعار حسب ذیل ہیں۔
نظر اٹھاﺅ تو دستار سر سے گر جائے
”نہ جانے کتنی بلندی پہ سر حسینؑ کا ہے“
ڈاکٹر الیاس نوید گنوری
ہمارے خون کے قطروں میں ہے شعور حسینؑ
ہماری آنکھوں کے دریا میں گھر حسینؑ کا ہے
مولانا اصغر اعجازقائمی جلالپوری
لباس لے کے زمیں پر جو آرہے ہیں ملک
ضرو ر عرشِ معلی پہ گھر حسینؑ کا ہے
ڈاکٹر کیفی سنبھلی
آﺅ خلیل دیکھ لو میدان عشق میں
قربان حق پہ ہو گیا کنبہ حسینؑ کا
ناصر شکیب
انسانیت جواب طلب آدمی سے ہے
کیوں کربلا میں پیاسا تھا کنبہ حسینؑ کا
راحت حسن
کبھی ہمیں بھی تقیہ میں رہنا پڑتا ہے
دل شکستہ ہمارا مگر حسینؑ کا ہے
ڈاکٹر رضی امروہوی
تاریخ دم بخود ہے کہ کیوں معرکہ ہوا
ان کا بھی تھا وہی جو تھا قبلہ حسینؑ کا
خالد فریدی
کہاں رکا ہے ابھی خون بے گناہوں کا
مرے خیال میں جاری سفر حسینؑ کا ہے
سید بصیر الحسن وفا نقوی
کوثر سے پاک ہو جو زباں تو ثنا کرے
ممکن نہیں قلم سے اعادہ حسینؑ کا
جعفر رضا روشن
لفظوں کی انجمن میں ہے چرچہ حسینؑ کا
کھچتا نہیں ہے ہم سے سراپا حسینؑ کا
سید محمد عادل فراز
سحر سے پہلے ہی اس کو ادھر ہی آنا ہے
یزیدی فوج میں ہے حر مگر حسینؑ کا ہے
امیر جعفری اکبرآبادی
خنجر بکف کھڑے ہیں ہر اک سو یزید نو
نزدیک تر ہے غیب سے آنا حسینؑ کا
حسن سرسوی
نثاردین پہ یوں گھر کا گھر حسینؑ کا ہے
کہ جیسے دینِ خدا سر بہ سر حسینؑ کا ہے
ظفر شکارپوری
شبیرؑ گر نہ جائیں کہیں ان کی پیٹھ سے
دیتا ہے طول سجدے کو نانا حسینؑ کا
تفسیربشر
ہیں نقش پائے امامت تن رسالت پر
علی کا دوش پہ اور پشت پر حسینؑ کا ہے
فائز شکارپوری
شفیق آپ کو کوئی مٹا نہیں سکتا
گلے میں آپ کے پٹا اگر حسینؑ کا ہے
استاد شفیق بیگ
یزید اس لئے تو مورچہ بھی ہار گیا
کہ حر ہے تیری صفوں میں مگر حسینؑ کا ہے
ناظم شکارپوری
یہ پانچ وقت اذانوں کی گونجتی آواز
شجر نبی کا لگایا ثمر حسینؑ کا ہے
ضیغم زیدی
ہر گھر میں ہر دیار میں قرآں کی شکل میں
ہر وقت دیکھتا ہوں میں چہرہ حسینؑ کا
ماجداشرفی سنبھلی
شرمندگی سے ہوگئیں موجیں بھی منجمد
ہاتھوں پہ اس نے دیکھا جو بچہ حسینؑ کا
انجینئر معراج نشاط
دامن پہ میرے اشکوں کی برسات ہوگئی
بس اک ذرا سا نام سنا تھا حسینؑ کا
تصویر حیدرسنبھلی
جناب حضرت رضواں کچھ اہتمام کریں
یہ آنے والا بڑا معتبر حسینؑ کا ہے
تنویر اشرفی
جسکا نہیں جواب علیؑ کا ہے وہ رکوع
سجدوں میں لاجواب ہے سجدہ حسینؑ کا
وسیم شکارپوری
کریں گے کرب و بلا میں زیارت احمد
شبیہ مرسل اعظم پسر حسینؑ کا ہے
ضیا چھولسی
خدا نے دی جسے عظمت وہ گھر حسینؑ کا ہے
وحی اترتی ہے جس پر وہ در حسینؑ کا ہے
مہدی جلالوی
خدا ہی جانتا ہے بس اسی کو ہے معلوم
”نہ جانے کتنی بلندی پہ سر حسینؑ کا ہے“
انجم سہارنپوری
مدافعین حرم کی شجاعتوں کے سبب
ابھی بھی ظلم کی آنکھوں میں ڈر حسینؑ کا ہے
محبوب ہلوری
اٹھا کے سر کو فلک دیکھتا ہے حیرت سے
”نہ جانے کتنی بلندی پہ سر حسینؑ کا ہے“
ڈاکٹر معراج نقوی
سفر میں ساتھ رہی صورتِ علی اکبرؑ
جمالِ مصطفےٰ رختِ سفر حسینؑ کا ہے
نوشاد سنبھلی
فانی جو یہ پوچھا تو کس کا غلام ہے
فانی نے جھوم جھوم کے لکھا حسینؑ کا
فانی جودھپوری
جہاں سے پاتا ہے معراج زندگی انساں
وہ کوئی اور نہیں ہے وہ در حسینؑ کا ہے
اسلم خورشیداسلم
اس کے علاوہ اظہر زیدی بجنوری، جعفر ایرانی،ذوالفقار زولفی،زین نقوی،عرفان جمالی،خورشید لکھنوی ،سلمان نبی،مجاہد مقصود پوری،ماجد بدایونی،نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔آخر میں پروگرام کے کنوینر اور بزمِ نویدِ سخن علی گڑھ کے جنرل سکریٹری سید بصیر الحسن وفا نقوی نے شعرائے کرام اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔