All three arrested sons of Hizbul Mujahideen chief Syed Salahuddin had been working for himتصویر سوشل میڈیا

سری نگر: جموں وکشمیر حکومت کے ذریعہ حال ہی میں دہشت گرد صلاح الدین کے تین بیٹوں کو سرکاری ملازمت سے برطرف کیے جانے والے تینوں بیٹوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرنے والی ایجنسی نے انکشاف کیا ہے کہ تینوں بیٹے دہشت گرد باپ سے جڑے ہوئے تھے اور اس کی مدد بھی کرتے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں بھائیوں کے خلاف ٹھوس شواہد فائلوں میں موجود تھے ، لیکن سابقہ حکومتوں کے رویہ کی وجہ سے وہ فائلوں میں دبے رہے۔ گذشتہ ہفتے جموں و کشمیر انتظامیہ نے 11 سرکاری ملازمین کو باہر نکال دیا تھا اور ان میں صلاح الدین کے بیٹے بھی شامل تھے۔ محبوبہ نے بھی اس کارروائی کو غلط قرار دیا تھا۔ اس نے مزید لکھا ، میں کسی کا ساتھ نہیں دے رہا ہوں۔ باپ کے کام کے لئے بیٹے کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ یہ صرف 11 افراد کی بات نہیں ہے۔ رواں سال تقریباً 25 افراد کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔صلاح الدین این آئی اے کی ہٹ لسٹ میں شامل ہیں اور امریکی محکمہ خارجہ نے اسے عالمی دہشت گرد بھی قرار دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ، صلاح الدین کا بیٹا سعید احمد شکیل اپنے والد کی برابر مدد کرتا تھا۔ ا س کے خلاف بہت
سارے ثبوت موجود تھے ، لیکن حکومت کا چہیتا ہونے کی وجہ سے اس پر کبھی کارروائی نہیں کی گئی۔سعید شکیل شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا ملازم تھا اور اس کی تقرری پچھلے دروازے سے کی گئی تھی۔ اس کو 1990 میں حکومت نے مقرر کیا تھا۔ وہ لگ بھگ چھ بار دہشت گردی کی مالی اعانت میں ملوث پایا گیا تھا۔ دہشت گرد کا دوسرا بیٹا شاہد یوسف بھی پچھلے دروازے سے سرکاری ملازم بنا تھا۔ وہ 2007 میں محکمہ زراعت میں بھرتی ہوا تھا۔ اس کے خلاف تقریباً نو بار معاملات سامنے آئے ہیں۔

ایجنسی کا کہنا ہے کہ شاہد یوسف 1999 میں دبئی گیا تھا اور اس کے پاسپورٹ پر باپ کا نام سعید محمد یوسف کے بجائے یوسف میر تھا۔ ان کے ہمراہ حزب کا آپریٹو ناصر میر بھی تھا۔ وہاں اس نے اپنے والد صلاح الدین سے ملاقات کی۔ اس نے بارہمولہ کے رہائشی نذیر احمد سے بھی ملاقات کی۔ نذیر اب دبئی میں رہتا ہے اور وہاں سے دہشت گردی کی مالی اعانت کرتا ہے۔ شاہد اعجاز احمد بھٹ عرف اعجاز مقبول بھٹ سے پیسہ لیتا تھا اور وہ صلاح الدین کے بہت قریب ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *