Altaf loses court battle for London propertyتصویر سوشل میڈیا

لندن (اے یو ایس ) لندن کی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ(پاکستان) ہی اصل ایم کیو ایم ہے اور ایم کیو ایم ٹرسٹ کی تمام جائیدادوں اور پراپرٹیوں کی مالک اور جائز حق دار (بینیفشری) ہے۔یہ مقدمہ دو مرحلوں پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں یہ طے کیا جانا تھا کہ اصل ایم کیو ایم کون سی ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2015 کے آئین کو ایم کیو ایم نے پارٹی کے آئین کے طور پر نہیں اپنایا تھا۔ عدالت نے کہا ہے کہ الطاف حسین 23 اگست 2016 کو پارٹی چھوڑ گئے تھے اور کبھی واپس نہیں آئے۔فیصلے میں کہا گیا کہ ڈفینڈنٹ نمبر 1(الطاف حسین) نے 21 ستمبر یا 14 اکتوبر کو جو جماعت بنائی تھی جس کا نام بھی متحدہ قومی موومنٹ تھا وہ ایک علیحدہ اور نئی جماعت ہے اور ٹرسٹ کی بینیفشری نہیں ہے۔فیصلے کے مطابق کہ متحدہ قومی موومنٹ(پاکستان) ایم کیو ایم ٹرسٹ کی تمام جائیدادوں اور پراپرٹیوں کی جائز حق دار (بینیفشری) ہے اور ان پراپرٹیوں میں سے ایک پراپرٹی 53 بروکس فیلڈ ایونیو لندن کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کی بھی حق دار ہے۔

اس مقدمے میں ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے امین الحق، ندیم نصرت، ڈاکٹر فاروق ستار اور وسیم اختر مدعی ہیں۔ جبکہ ایم کیو ایم لندن کی جانب سے الطاف حسین، اقبال حسین، طارق میر، محمد انور ، افتخار حسین، قاسم علی رضا اور یوریو پراپرٹی ڈولپمنٹ لمیٹڈ دفاع کر رہے ہیں۔ایم کیو ایم پاکستان نے اکتوبر 2020 میں یہ مقدمہ دائر کیا تھا۔دوسرے مرحلے میں عدالت یہ طے کرے گی ٹرسٹ کے زیرِ انتظام پراپرٹیوں سے متعلق کوئی خلاف قانون کام تو نہیں کیا گیا۔دوسرے مرحلے میں ایم کیو ایم پاکستان کے وکلائ عدالت سے درخواست کریں گے کہ ٹرسٹ میں شامل موجودہ ٹرسٹیز کے ناموں کو خارج کیا جانا چاہیے کیونکہ بینیفشری کو یہ حق حاصل ہے وہ موجودہ ٹرسٹیز کے ناموں کو نکال کر نئے نام شامل کریں۔موجودہ ٹرسٹیز میں الطاف حسین، اقبال حسین، طارق میر، محمد انور مرحوم، افتخار حسین، قاسم علی رضا اور یوریو پراپرٹی ڈولپمنٹ لمیٹڈ شامل ہیں۔ان میں سے محمد انور کا انتقال ہو چکا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الطاف حسین نے اگست 2016 میں ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور وہ یہ بات عدالت کے سامنے بھی تسلیم کر چکے ہیں۔مقدمے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ الطاف حسین نے 22 اگست کو جو تقریر کی تھی جس کے بعد ایک تنازع پیدا ہو گیا تھا اور اگلے روز یعنی 23 اگست کو انھوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا جو اب تک لاگو ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سنہ 2000 اور اس کے بعد ایم کیو ایم کے آئین کی شق 9 بی میں الطاف حسین کو قائد تحریک قرار دیا گیا تھا جو کہ ایک اعزازی ٹائیٹل تھا۔ اس شق کے مطابق رابطہ کمیٹی کے لیے لازمی تھا کہ وہ ان سے رہنمائی حاصل کرے لیکن ان کے فیصلوں پر عمل درآمد کی پابند نہیں تھی۔ الطاف حسین کی ہدایات اور فیصلوں پر عمل کرنا رابطہ کمیٹی کا صوابدیدی اختیار تھا۔ہائی کورٹ آف جسٹس بزنس اینڈ پراپرٹی کورٹس آف انگلینڈ اینڈ ویلز کے آج کے فیصلے پر اپنا ردِعمل دیتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اس فیصلے سے ایم کیو ایم کے ان کارکنوں کو فائدہ ہو گا جنھوں نے قربانیاں دی ہیں اور جن کے اہل خانہ مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ ’ان پراپرٹیوں سے حاصل ہونی والی آمدنی ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خاندانوں کی تعلیم اور صحت پر خرچ کی جائے گی۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ڈاکٹر عمران فاروق کی بیوہ لندن میں انتہائی مشکل حالات میں رہ رہی ہیں ان کی مدد کی جائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *