برلن: 25سالہ طالبعلم حیات بلوچ کو انصاف دو، بلوچوں کو انصاف چاہئے اور ایران و پاکستان بلوچستان چھوڑو کے نعروں کی گونج میںتحریک آزادی بلوچستان کے پرچم تلے جرمنی میں زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں سیکڑوں افراد نے حصہ لیا۔
مظاہرین نے جو بینرز اٹھا رکھے تھے ان پر بلوچستان میں پاکستان اور چین کے جرائم اور ظلم و ستم بند کرنے کے مطالبا ت تحریر تھے ۔احتجاجیوں نے احتجاج کے دوران ہزاروں پمفلٹ اور دو ورقی تقسیم کیے ۔اس احتجاجی مارچ میں بلوچ لوگوں سے یکجہتی اور پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچ طلبا کا ماو¿رائے عدالت قتل کی وارداتوں کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے کے لیے جرمن سول سوسائٹی کے لوگوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے حصہ لیا۔احتجاجیوں نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے25سالہ طالبعلم حیات بلوچ کا اسی کے بوڑھے والدین کی نظروں کے سامنے وحشیانہ قتل خطہ میں پاکستانی حکومت کے ذریعہ کی جانے والی بلوچ نسل کشی کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔
مظاہرین نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں جہاں ہزاروں لوگ جبری گمشدگی کے شکار اور ماو¿رائے عدالت قتل کیے جا چکے ہیں، پاکستانی فوج کی ظلم و زیادتیاں روز مرہ کا معمول بن گئی ہیں۔ واضح ہو کہ 13اگست 2020کو تربت کے آپسر علاقہ میں بلوچ باغیوں نے فرنٹیر کور (ایف سی) کے فوجیوں پر حملہ کر دیا تھا،۔ اور جب جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایف سی کے فوجی حملہ آوروں کا سراغ نہ لگا سکے تو انہوں نے ایک قریبی نخلستان سے جہاں کھجوروں کے درخت تھے، اپنے والدین کی باغبانی میں مدد کرنے جانے والے حیات مرزا کو دبوچ لیا۔مقامی ذرائع کے مطابق ایف سی اہلکاروں نے سڑک کنارے واقع باغ سے حیات مرزا کو زبردستی کھینچتے ہوئے لے گئے۔اسے زمین پر اوندھے منھ لٹا دیا گیا پھر اس کی چیختی چلاتی ماں کا دوپٹہ کھینچا اور اس کی آنکھوں پر باندھ دیا اور پھر اس کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے۔حیات کو اپنی بے گناہی کی وضاحت کرنے کا موقع دیا گیا اور نہ ہی اسے یہ حق دیا گیا کہ وہ معلوم کر سکے کہ آخر اس کے ساتھ ایسا سلوک کس جرم یا غلطی کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔ اس کا قصور کیا ہے؟ اور جب اس نے پوچھنا چاہا اور مزاحمت کی کوشش کی تو اسے بری طرح زدو کوب کیا گیا اور پھر بڑی بے رحمی سے اس کے روتے بلکتے اور رحم کی بھیک مانگتے والدین کے سامنے ہی اس کے جسم میں کئی گولیاں اتار کر اسے جان سے مار ڈالا گیا۔حیات کے والدین کو ان کے بیٹے کو ان کی نظروں کے سامنے دم توڑتے دیکھنے پر مجبور کیا گیا۔
حیات کے ماوؤرائے عدالت قتل کے حوالے سے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستانی فوج کی پالیسیوں میں سے ایک یہ ہے کہ بلوچ سماج کے سربرآوردہ لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے ۔بلوچستان شدید قسم کے انسانیت کے بحران سے گذر رہا ہے اور گذشتہ دو عشروں سے بلوچ عوام ظلم و ستم سہہ رہے ہیں اور اس کی نوجوان نسل کا ایک بڑا حصہ جبراً گمشدگی اور امو¿رائے عدالت قتل کا شکار ہو چکا ہے ۔ہزاروں نوجوان حالیہ برسوں میں اپنی جان بچانے کے لیے مختلف ممالک نقل مکانی کر چکے ہیں۔ملک کی عدلیہ فوج کے سخت کنٹرول میں ہے جبکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت فوج کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے اور اس عوحشیانہ کارروائیوں کے خلاف خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ پاکستان میں قانون ساز اداروں کے اراکین بھی اتنے بے یار و مددگار ہیں کہ وہ بلوچستان میں حقوق انسانی کی پامالی اور اس قسم کے وحشیانہ واقعات کی مذمت میں سوائے زبانی جمع خرچ کے، جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، ایک لفظ نہیں بول سکتے ۔ نہ ان کے لیے کچھ کر سکتے ہیں اور نہ ہی قانونی اصلاحات لا سکتے ہیں۔ بلوچستان میں رہنا بتدریج خطرناک ہوتا جا رہا ہے ۔اقوام متحدہ بشمول بین الاقوامی برادری کو سنجیدگی سے اس معاملہ کو دیکھنا چاہئے اور پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچ معاشرے کے سربرآوردہ لوگوں کی ہلاکتوں اور جبری گمشدگی کو روکنے کے لیے مداخلت کرنی چاہئے۔