لندن: عالمی یوم جبراً لاپتہ افراد کے موقع پر دنیا کے مختلف حصوں میں پاکستان مخالف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔کیونکہ پاکستان میں جبری گمشدگی کے واقعات میں کمی آنے کے بجائے روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اور بسا اوقات جبری طور پر لاپتہ کیے گئے ان افراد کو ماوؤرائے عدالت قتل کر دیا جاتا ہے اور ان کی لاشوں کو کسی سنسان اور دور افتادہ مقام پر ڈال دیا جاتا ہے۔
اس ضمن میں پاکستان کے خلاف یو کے کے دارالخلافہ لندن اور امریکہ کے شہر نیو یارک میں پاکستان مخالف مظاہرے کیے گئے۔تحریک آزادی بلوچستان (فری بلوچستان موومنٹ) کے حامیوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کیا۔جبکہ سندھی بلوچ فورم کے کارکنوں نے سڑکوں پر مظاہرے کیے۔دوسری جانب پاکستان کے اقلیتی طبقہ نے اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف نیو یارک میں پاکستانی قونصل خانہ کے باہر مظاہرہ کیا۔
مظاہرین نے اپیل کی کہ ہم مہذب دنیا، بین الاقوامی برادری، عالمی عدالت ، اقوام متحدہ اور حقوق انسانی تنظیموں سے التماس کرتے ہیں کہ غیر قانونی طور پر اغوا اور بلا سبب گرفتاریوں کے خاتمہ کے لیے ہنگامی بنیاد پر یہ معاملہ اٹھائیں۔ جبری طور پر لاپتہ کیے جانے کی پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں برسوں سے جبری طور پر لاپتہ کیے جانے کی پرانی تاریخ ہے۔ جب سے پاکستان نے بلوچستان پرغیر قانونی قبضہ کیا ہے ہزاروں بلوچ اغوا اور لاپتہ کیے جاچکے ہیں۔ اور سیکڑوں کا پاکستان کی مارو اور پھینکو کی پالیسی کے تحت صفایہ کیا جا چکا ہے۔
ہزاروں بلوچوں کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔پاکستان بلوچستان پر اپنے غیر قانونی قبضہ ے پہلے ہی دن سے جبری طور پر لاپتہ کیے جانے کو بلوچستان کے ستم رسیدہ لوگوں کو خاموش کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔متعدد بلوچوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور بہت سوں کو فوج کے خفیہ قید خانوں میں ڈال کر ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے اور سخت اذیتیں پہنچائی جا رہی ہیں۔اب بلوچوں نے سڑکوں پر اترنا شروع کر دیا ہے اور لاپتہ افراد کے گھر والوں کو ناقابل بیان نقصان پہنچا ہے اور وہ اپنے پیاروں کے اتہ پتہ یا ان کی زندگی کے حوالے سے بے یقینی کی زندگی جی رہے ہیں۔حقوق انسانی کمیشن آف پاکستان کے مطابق سلامتی دستوں کے ہاتھوں بلوچ خواتین کو نشانہ بنائے جانے کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
واضح ہو کہ عالمی یوم لاپتہ افراد عالمی پیمانے پر ہر سال30اگست کو منایا جاتا ہے۔یہ دن پہلی بار امریکی ریاست کوسٹاریکا میں منایا گیا جو جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والی وارداتوں کے خلاف کام کرنے والی ایک تنظیم کے پرچم تلے منعقد ہوا ۔اس کے بعد یہ دن ہر سال 30اگست کو منایا جانے لگا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ ہفتہ بھی بلوچ معاملہ پر پاکستان کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا گیا تھا۔
برامش سالیڈیریٹی کمیٹی کے پرچم تلے 10ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر جمع مظاہرین ہاتھوں میں تختیاں اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے جس پر بلوچیوں کے حق میں نعرے اور ان پر ہونے والے مظالم بند کرنے والے نعرے تحریر تھے۔ احتجاجیوں نے بلوچستان میں حقوق انسانی کی بڑھتی خلاف ورزیوں اور ہرنائی واردات کے خلاف، جس میں پاکستانی فوج نے قیصر چالگاری کے خاندان بشمول 9سالہ بیٹی ناز بی بی کو ہلاک کر دیا تھا، نعرے لگائے۔
بلوچ نیشنل تحریک یو کے زون کے صدر حکیم بلوچ نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یوکے مقیم بلچ برادری بلوچستان میں پاکستان کے فوجی ایکشن اور اس کے ڈیتھ اسکواڈ کی کارروائی کی شدت سے مذمت کرتی ہے۔بلوچستان راجیزرموبیش کے رہنما عبد اللہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے بلوچستان میں خوف و دہشت کی لہر دوڑانے کے لیے اپنا ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیا ہوا ہے۔وہ بے قصور بلوچ خواتین کو ہلاک اور مکانات پر حملے کر کے تمام بلوچ برادری کو خوفزدہ کردینا چاہتے ہیں کہ وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں۔