کابل: افغانستان کی راجدھانی کابل میں ایک بار پھر اقلیتی سکھ طبقہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ساتھ ساتھ انہیں ڈرایا دھمکایا بھی جارہا ہے۔ انڈیا ورلڈ فورم کے پرمکھ پنیت سنگھ چنڈوک نے کہا ہے کہ خود کو اسلامک امارات آف افغانستان کے ا سپیشل یونٹ کا حصہ بتانے والے کئی ہتھیار بند لوگ گوردوارہ دشمیش پتا میں جبراً گھس گئے۔ راجدھانی کابل میں کرتی پردانا واقع گوردوارے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے انہوں نے سکھوں کو دھمکایا۔چنڈوک نے کہا کہ یہ لوگ گوردوارے کے پاس ہی واقع سابق ممبر پارلیمنٹ نریندر سنگھ خالصہ کے دفتر اور گھر میں بھی گھسے۔ انڈیا ورلڈ فورم کے صدر نے بتایا کہ اس گوردوارے میں سکھ فرقہ کے تقریباً20 ممبر موجود ہیں۔انہوں نے بھارت سرکار سے اپیل کی ہے کہ افغانستان میں رہ رہے ہندو اور سکھ فرقوں کو ستائے جانے پر تشویش ظاہر کرے اور اعلیٰ سطح پر افغانستان کے ہم عہدیداروں کے ساتھ اٹھایا جائے۔
واضح ہو کہ پاکستان میں سکھوں پر ظلم و ستم کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ، پاکستان میں سکھ برادری کے لوگوں میں اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال بڑھ گئی ہے اور پہلے سے موجود اقلیتی سکھوں کی آبادی میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے۔ حال ہی میں 30 ستمبر کویونانی دوا خانہ چلانے والے ایک سکھ ستنام سنگھ کو خیبر پختونخوا کے پشاور میں واقع دواخانے میں گھس کر گولی مار کر اس کا قتل کر دیا گیاہے۔ بعد میں اس قتل کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم آئی ایس آئی ( داعش )نے قبول کی۔ گزشتہ سال جنوری میں ملیشیا میں رہنے والے رویندر سنگھ کوشادی کے لیے پاکستان واپس لوٹنے پر جان سے مار دیا گیا تھا۔ اس کا قتل بھی پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میںکیا گیا تھا۔ڈیلی سکھ اخبار کی رپورٹ کے مطابق سکھوں کے حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ 2002 سے پاکستان میں اقلیتی سکھوں کی آبادی میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ چونکہ وہاں بدستو جبراً تبدیلی مذہب اور سکھوں کے خلاف تشدد جاری ہے۔ ان مسائل پر سکھوں کو کوئی قانونی تحفظ نہیں دیا گیا ہے۔
لاہور کے جی سی کالج یونیورسٹی کے پروفیسر اور اقلیتی انسانی حقوق کے کارکن پروفیسر کلیان سنگھ نے کہا کہ پاکستان میں سکھوں کی آبادی بہت تیزی سے کم ہوئی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ سکھوں کا جبری تبدیلی مذہب ہے۔ پاکستان کی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ سکھوں کی تعداد صرف 6146 ہے۔ جبکہ این جی او سکھ ریسورسز اینڈ سٹڈی سنٹر کے ذریعہ کی گئی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں اب بھی تقریبا 50 ہزار سکھ آباد ہیں۔ جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کے دعوے کے مطابق پاکستان میں صرف بیس ہزار سکھ رہتے ہیں۔ تاہم ، 2017 کی پاکستانی مردم شماری میں سکھوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس بارے میں کوئی ٹھوس معلومات دستیاب نہیں ہے۔ سکھ برادری کے زیادہ تر لوگ خیبر پختونخوا ، سندھ اور پنجاب صوبوں میں رہتے ہیں۔ 2009 میں طالبان نے اورکزئی میں 11 سکھ خاندانوں کے گھر تباہ کر دیے تھے۔ وہ ان سے جزیہ ٹیکس وصول کرنا چاہتے تھے۔ جزیہ ٹیکس نہ چکانے پر2010 میں جسپال سنگھ نامی شخص کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔