Armenia-Azerbaijan ceasefire broken again hours after truceتصویر سوشل میڈیا

ناکونوقراباغ:( اے یوایس) آرمینیا اور آذربائیجان نے متنازع علاقے ناگورنو قراباغ میں کوئی تین ہفتے سے جاری لڑائی کے بعد ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ہونے والا جنگ بندی معاہدہ چند گھنٹے بعد ہی ٹوٹ گیا اور فریقین نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرانا شروع کر دیا۔ اس ماہ روس کے ذریعہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کرایا جانے والا دوسرا جنگ بندی معاہدہ ہے جس کی دونوں متحارب ممالک نے خلاف ورزی کی ہے۔

حالانکہ گاتوار کو رات دیرگئے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف سے ٹیلی فون پر بات چیت میں اس نئی جنگ بندی سے اتفاق کیا تھا۔مسٹر لاروف نے دونوں ملکوں پر زوردیا تھا کہ وہ خونریزی روکنے کے لیے ماسکو سمجھوتے کی پاسداری کریں۔

گذشتہ ہفتے کے روز بھی متحارب فریقوں نے ماسکو میں روس کی ثالثی میں ناگورنو قراباغ میں جاری لڑائی روکنے سے اتفاق کیا تھا مگر اس کے باوجود اس متنازع علاقے میں متحارب فورسز کے درمیان لڑائی جاری رہی اور اس معاہدے ے بعد بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر گولہ باری کررہے ہیں۔

ناگورنو قراباغ کا علاقہ آذربائیجان میں واقع ہے لیکن اس پر آرمینیائی نسل کی فورسز کا 1994 سے کنٹرول چلا آرہا ہے۔آرمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان 1991 میں سابق سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے ناگورنو قراباغ پر کنٹرول کا تنازعہ چل رہا ہے۔1990 کے عشرے کے اوائل میں ناگورنو قراباغ نے آذر بائیجان کے خلاف جنگ کے بعد اپنی آزادی کا اعلان کردیا تھا۔

اس لڑائی میں 30 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ تین سال کے بعد 1994 میں آرمینیا اور آذربائیجان میں جنگ بندی کا ایک سمجھوتا طے پایا تھا مگر اس کے باوجود اپریل 2016 میں دوبارہ قراباغ میں لڑائی چھڑ گئی تھی۔اس کے بعد اب دوبارہ خونیں لڑائی ہورہی ہے اور اس میں فریقین کے سیکڑوں شہری مارے گئے ہیں۔

نئی جنگ بندی سے قبل آذربائیجان کے دوسرے بڑے شہر گنجہ میں بیلسٹک میزائل کے حملے میں 13 شہری ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں۔آذربائیجان نے آرمینیا پر اس میزائل حملے کا الزام عاید کیا ہے جبکہ آرمینیا کی وزارت دفاع نے ایسے کسی حملے کی تردید کی ہے۔ناگورنو قراباغ کے علاحدگی پسند حکام نے ایک بیان میں کہا تھا کہ گنجہ شہر میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن انھوں نے واضح الفاظ میں اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *