اسلام آباد/کابل: افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر طویل سرحد کے دونوں اطراف کے اسلحہ کاروباریوں نے اپنے گاہکوںسے دوبارہ رابطہ شروع کر دیا ہے۔
طالبان کی حکومت آتے ہی اسلحہ سمگلروں کی تو جیسے موج آگئی کیونکہ ان کوکئی دہائیوں کے بعد کاروبار میںتیزی کی توقع ہے۔دراصل پاک افغان سرحد پر گزشتہ کئی دہائیوں سے کوئی قانون نہیں رہاہے اور یہاں صرف قبائلی قانون ہی چلتا ہے۔جب ناٹو افواج افغانستان میں تعینات تھیں ، اس دوران ہتھیاروں کی کھیپ پاکستان کی بندرگاہ کراچی پہنچتی تھی۔ یہاں سے ، اسٹاک کنٹینرز میں بھر کر سڑک کے ذریعے خیبر پختونخواہ کے راستے افغانستان کے ناٹو اڈے تک پہنچایا جاتا تھا۔ اس راستے پر گھات لگائے جنگجو کنٹینر کو لوٹ لیتے تھے۔ کئی بار تو ناٹو اڈے پر پہنچنے والے کنٹینر آدھے رہ جاتے تھے یا پہنچتے ہی نہیںتھے۔
خیبر پختونخوا سے متعلقہ اس علاقے میں ، چاہے امریکی ایم-4 پستول ہو یا کوئی اور ہتھیار ، آرڈردیتے ہی ہی ہینڈ ڈیلیوری ہوتی ہے۔ یہاں چینی ہتھیار او درہ آدم خیل میں ان کے کارخانے میں بننے والے ر ہتھیار بھی موجود ہیں۔وہ پاک افغانستان سرحد پر بش بازار یعنی جھاڑی بازار میں فروخت ہوتے ہیں۔ 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان میں فوج بھیجی تھیں تبھی سے اس کا نام بش بازار پڑا۔ اب اسے ستارہ جہانگیر بازار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پاک افغان سرحد پر اسلحہ بیچنے والا احمد آج کل اپنے ا سمارٹ فون پر ویڈیو کالز کے ذریعے بکنگ کرتا ہے۔ جس بھی ہتھیار کی مانگ میں ہوتی ہے، اسے خریدار کو بہت کم وقت میں دستیاب کر ادیا جاتاہے۔
تقریبا دو دہائیوں سے اسلحہ کے کاروبار سے جڑے احمد کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید تیزی آنے کی متوقع ہے۔ اسلحہ فراہم کرنے والے خالد کے مطابق بش مارکیٹ میں امریکی ہتھیاروں کے ساتھ چینی ہتھیار بھی دستیاب ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ تقریبا دو دہائیاں پہلے تک سوویت ہتھیاروں کو بھی فروخت کیا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ ہتھیار نہیں ملا ہے۔ اب چینی ہتھیار بھی بش مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہیں ، یہ سستے ضرورہیں لیکن بالکل قابل اعتماد نہیں ہیں۔