کابل: (اے یو ایس ) افغان فورسز کی پسپائی کے بعد نہ صرف طالبان نے افغانستان میں سیاسی طاقت حاصل کر لی ہے بلکہ انہیں فراہم کردہ امریکی ہتھیار، اسلحہ بارود، ہیلی کاپٹرز اور دیگر ساز و سامان بھی طالبان کے ہاتھ لگنے کی اطلاعات ہیں۔خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کی رپورٹ کے مطابق افغان فورسز صوبائی ضلعی مراکز کا دفاع کرنے میں ناکام رہیں۔ اس کی وجہ سے بھاری تعداد میں جدید جنگی آلات طالبان کے ہاتھوں میں چلے گئے۔اس کے بعد لڑاکا طیاروں سمیت مزید اہم ساز و سامان ان کے ہاتھ آیا جب صوبائی دارالحکومت اور فوجی اڈوں سے افغان فورسز پسپا ہوئیں۔ایک دفاعی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ طالبان کے ہاتھ بھاری مقدار میں امریکہ کے فراہم کردہ آلات لگے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ پسپائی افغان حکومتی فورسز کے بارے میں امریکہ عسکری اور انٹیلی جنس اداروں کے غلط اندازوں کا ثبوت ہے۔
’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق پائیدار بنیادوں پر افغان فوج اور پولیس تیار کرنے میں امریکہ کی مبینہ ناکامی اور ان کی پسپائی کے اسباب آئندہ برسوں میں عسکری تجزیے کا اہم موضوع ہوں گے۔پیر کو امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگان) کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ پیسوں سے عزم نہیں خریدا جا سکتا اور نہ ہی قیادت۔امریکہ کی فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل اور صدر جارج بش اور صدر اوباما کے دور میں افغان جنگ کی حکمت عملی تشکیل دینے میں مدد فراہم کرنے والے ڈگ لوٹ کا کہنا ہے کہ جنگ کا اصول ہے کہ ہمت و حوصلہ مادی عناصر سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلند حوصلہ، نظم وضبط، قیادت، باہمی ہم آہنگی تعداد اور آلات سے زیادہ فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ ہم صرف انہیں آلات اور ساز و سامان ہی فراہم کرسکتے تھے لیکن عزم و حوصلے کا مظاہرہ تو افغان فوج کو ہی کرنا تھا۔اس کے برعکس افغان طالبان جنگجو کم تعداد اور ناقص ساز وسامان کے باوجود میدان میں برتری ثابت کرنے میں کام یاب رہے۔صدر ٹرمپ کے دور میں قائم مقام سیکریٹری دفاع رہنے والے کرس ملر کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے امید کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی ترتیب نہ دی ہوتی تو ہمیں انداہ ہوتا کہ فوج کے انخلا سے افغان فورسز کو یہ پیغام ملا ہے کہ انہیں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے عجلت میں افغانستان کے دفاع کو قابلِ اعتماد بنانے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ طالبان سے لڑائی بھی جاری تھی، امریکہ کابل میں قائم حکومت کی سیاسی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے کوشاں تھا اور ایک ایسے ملک میں جہاں کرپشن اور اقربا پروری کی شکایات عام ہیں۔افغان جنگی امور کے ماہر اور سینٹر فور اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے وابستہ تجزیہ کار انتھونی کورڈزمین کا کہنا تھا کہ افغان فوج کے بعض اہل کاروں نے ڈٹ کر طالبان کا مقابلہ کیا۔ ان میں ایسے کمانڈر بھی ہیں جن کی دلیرانہ کاوشیں ابھی تک پوری طرح سامنے نہیں آ سکی ہیں۔البتہ ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر امریکہ اور ناٹو اتحادیوں نے جو سیکیورٹی فورسز بنائی تھیں وہ ”تاش کے پتوں کا گھر“ ثابت ہوئیں۔ یہ امریکہ کے عسکری قائدین کے ساتھ سیاسی قیادت کی بھی ناکامی ہے۔
‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کی رپورٹ کے مطابق افغان فورسز کی تشکیل میں امریکہ پر اتنا زیادہ انحصار کیا گیا کہ افغان فوجیوں کی تنخواہیں بھی پینٹاگان سے ادا کی جارہی ہیں۔ اکثر یہ رقوم اور ایندھن کی نامعلوم مقدار کرپٹ افسران کے گھپلوں کی نذر ہوجاتی تھی اور یہ سب حکومت کی ناک کے نیچے ہورہا تھا۔انسپکٹر جنرل فور افغانستان ری کنسٹرکشن کے دفتر کے مطابق امریکہ نے افغانستان کی تعمیرِ نو پر 145 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے۔ اس میں سے 83 ارب ڈالر فوج اور پولیس کی تشکیل پر صرف کیے گئے۔ یہ 145 ارب ڈالر ان 837 ارب ڈالر کے علاوہ ہیں جو امریکہ نے اکتوبر 2001 میں شروع ہونے والی جنگ میں مجموعی طور پر خرچ کیے۔