Army inquiry report on Karachi incident 'rejected': Nawaz Sharifتصویر سوشل میڈیا

اسلام آباد:(اے یو ایس)سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار کی مبینہ بیحرمتی اور آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا کے معاملے پر پاکستانی فوج کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کو ’مسترد‘ کر دیا ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں نواز شریف نے کہا کہ ’کراچی واقعے کی انکوائری رپورٹ ایک کور اپ (حقائق کو چھپانا) ہے (جس کا مقصد) جونیئرز کو قربانی کا بکرا بنانا اور اصل مجرموں کو بچانا ہے۔

رپورٹ ریجیکٹڈ (انکوائری رپورٹ مسترد کی جاتی ہے)۔‘یاد رہے کہ 29 اپریل 2017 کو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے ڈان لیکس کی انکوائری کے معاملے پر پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفیکیشن کو لگ بھگ انھی الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے ٹویٹ کی تھی ’نوٹیفیکیشن از ریجیکٹڈ۔‘نواز شریف کی ٹویٹ سے قبل منگل کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ایک انکوائری کے نتیجے میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز کے ا±ن اہلکاروں کے خلاف ایکشن لے لیا گیا ہے جنھوں نے بانی پاکستان کے مزار کی ‘بےحرمتی’ کے واقعے پر ‘عوامی دباؤ’ کے تحت زیادہ ہی جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ان تمام افسران کو ا±ن کی موجودہ ذمہ داریوں سے سبکدوش کرتے ہوئے ا±ن کے معاملات جی ایچ کیو کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کراچی واقعے پر اعلامیہ جاری ہونے کی دیر تھی کہ پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین نے اپنی اپنی آرا دینے کا سلسلہ شروع کر دیا اور اور ایک ہی گھنٹے میں ’آئی ایس پی آر‘، ’رینجرز‘ اور ’آئی جی سندھ‘ ٹاپ ٹرینڈز بن گئے۔تاہم دیگر تمام معاملات کی طرح رائے یہاں بھی منقسم ہی رہی۔ بہت سے صارفین اس بات پر سر دھنتے نظر آئے کہ فوج کی جانب سے انکوائری کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا وہ بالآخر وفا ہوا اور انصاف کا بول بالا ہوا۔

جبکہ چند صارفین اس بات پر نالاں نظر آئے کہ جو افسران اور اہلکار اس معاملے میں ملوث نکلے نہ تو ان کے نام سامنے لائے گئے اور کیا ایک پولیس افسر کو ’اغوا‘ کرنے کی سزا صرف عہدے سے سبکدوش کیا جانا ہے؟جبکہ ٹی وی اینکر کامران خان کی طرح کئی صارفین کیپٹن صفدر کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کی منسوخی اور سکیورٹی اہلکاروں کو عہدوں سے ہٹانے پر کچھ خوش دکھائی نہیں دیے۔چند صارفین ایسے بھی تھے جو یہ یاد کرواتے رہے کہ سندھ آئی جی کے اغوا کی ’کہانی گھڑی نہیں گئی تھی بلکہ اس میں کچھ حقیقت بھی تھی تبھی تو ایکشن لیا گیا‘۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اس معاملے کی اطلاع شاید ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران ملی۔گلگت بلتستان کے علاقے نگر میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’میں نے اس معاملے پر ایکشن لینے کا مطالبہ کیا تھا اور اب مجھے خوشخبری مل رہی ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف نے انکوائری بھی کی اور ایکشن بھی لیا۔ ہمیں اس کو ویلکم کرنا چاہیے۔

اس قسم کے ایکشن سے اداروں کی انٹیگریٹی (سالمیت) میں اضافہ ہوتا ہے اور جمہوری طریقہ کار بھی یہی ہے کہ جو بھی غلطی ہو اس کی تحقیقات ہوں اور ایکشن لیا جائے۔ جمہوریت کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا پڑے گا۔‘صحافی عاتکہ رحمان نے لکھا کہ فوج کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں یہ کہنا کہ ’آئی ایس آئی/رینجرز کے افسران کو تحمل اور احتیاط سے کام لے سکتے تھے‘ اس واقعے کی سنگینی کو کم کرنے کے مترادف ہے، ایک ایسا واقعہ جس نے سول اداروں اور قانون کی بالادستی کے تصور کی تضحیک کی۔جبکہ چند لوگ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کی تحریر پر بھی بات کرتے نظر آئے۔ صارف محمد کامران خان نے لکھا کہ محفوظ اور محتاط انداز میں پریس ریلیز لکھنے کی ایک شاندار مثال۔صارف ندیہ اطہر نے ٹویٹ کی ’نامعلوم افسران کو، نامعلوم عہدوں سے ہٹا کر، نامعلوم انکوائری کے لیے جی ایچ کیو بھیج دیا۔ چلو جی مٹی پاؤ!‘سردار محمد شرافت نامی صارف نے لکھا کہ ’یعنی افسران کے خلاف کارروائی جی ایچ کیو میں کی جائے اور باقی سب مائع ہے۔

عدالتیں صرف سیاستدانوں کے لیے ہیں باقی ہم اپنے گھر میں ساری کارروائی مکمل کریں گے۔‘چند صارف عمران خان کا اس معاملے پر نجی ٹی وی کو دیے گئے اس انٹرویو کے کلپ شیئر کرتے رہے جس میں وہ آئی سندھ کے مبینہ اغوا کی خبر کو ’کامیڈی‘ قرار دیتے ہوئے ہنس رہے ہیں۔ محمد مشاق نامی صارف نے لکھا کہ اس معاملے میں افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا ہے، وزیر اعظم اس کو ’کامیڈی‘ قرار دے رہے تھے جبکہ اسٹیبلیشمٹنٹ نے ان ہی کے ساتھ مذاق کر دیا۔نجی ٹی وی سے وابستہ اینکر حامد میر وہ شخص تھے جنھوں نے سندھ آئی جی کے مبینہ اغوا کی خبر ٹوئٹر پر سب سے پہلے شیئر کی تھی۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلیز کے اجرا کے بعد انھوں نے ٹویٹ کی اور ان لوگوں کے لیے ’دعا گو‘ ہوئے جنھوں نے ان کی اس ٹویٹ کے جواب میں انھیں برا بھلا کہا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *