یحییٰ علیمی
انسان کی مرضی چلتی کب ہے؟ پیدا ہوتا ہے نرسوں کے ہاتھ میں،پھر ماں باپ کی مرضی،استاد کی مرضی،بیمار ہو تو ڈاکٹر کی مرضی،عدالت میں پیش ہوتو جج کی مرضی،جہاز میں پائلٹ کی مرضی،دریا میں گرا پانی کی مرضی،آگ میں گھرا آگ کی مرضی، ہوامیں اڑا ہوا کی مرضی،خاک میں دبا خاک کی مرضی،ہندو،مسلمان،سکھ ،عیسائی مرجانے کے باجود بھی اپنی رسومات کے مطابق اس کی آخری رسومات اداکریں گے؟ الغرض اوپر سے نیچے آنے میں دوسروں کے محتاج،نیچے سے اوپرجانے میں بھی دوسروں کے محتاج ان کے رحم و کرم پر،پھر اس کواپنی مرضی چلانے کا موقع ملا ہی کب؟
گزشتہ چند دنوں سے کورونا اور۔۔۔میری مرضی کے موضوعات زباں زد عام ہیں۔ان موضوعات میں سے ۔۔۔ میری مرضی والا موضوع ایسا ہے کہ کوئی بھی سلیم الفطرت انسان اس کے متعلق سوچنا،کلام کرنا،کچھ لکھنا بھی گوارانہ کرے گا۔یہ صرف گندکریدنے،اچھالنے اورایک دوسرے پرپھینکنےکے مترادف ہے۔گندگی کو جتنا کریدو،اکھاڑو اورکھرچو نیچے سے گندگی اور متعفن،بدبودار غلاظت ہی نکلے گی لہذا الامان والحفیظ۔لیکن! جب ہمارے میڈیا نے کمال مہارت،ہوشیاری اورعیاری سے پیالی میں سونامی برپا کرہی دیا اورایسا محسوس ہونے لگا کہ آج کا اہم ترین موضوع یہی ہے تومیں بھی اس موضوع پر چند گزارشات پیش کرناچاہوں گا۔
اس سلسلے میں پہلا نکتہ میری مرضی سے متعلق ہے۔کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس دنیا میں اس کی مکمل مرضی چلتی ہے حتی کہ اس کے اپنے جسم پر بھی نہیں چلتی۔انسان سماجی، معاشرتی، سیاسی، اخلاقی، مذہبی اور روحانی طور پر بہت سے بندھنوں میں جکڑا ہواہوتا ہے جس سے باہر آتے ہوئے اس کو کئی دفعہ سوچنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اس سے باہر آنے کے لئے اسے سماج سے بغاوت کرنا پڑے گی جس کا نہ ہر ایک میں دم خم ہے اور نہ ہی ہر بغاوت انقلاب پر منتج ہوتی ہے بلکہ اکثر اپنے باغیوں کے ساتھ آس پاس کہیں دفن کردی جاتی ہیں۔
جہاں تک ہماری مرضی کی بات ہے تو ہمارابدن ہمارے رب کی عطا ہے۔اب اس جسم پر حکم وفرمان بھی اس ہی کا چلے گا۔بظاہر اگر یہ بدن ہمیں ساٹھ پینسٹھ برس کے لئے امانتاً دیا گیا ہے تو اس پر اپنی مرضی کا نعرہ بلند کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔جیسا کہ اوپرذکرکیاگیا مرضی چل بھی نہیں سکتی لیکن پھر بھی اپنی مرضی کا راگ الاپنے سے مرضی لاگو نہیں ہوجائے گی۔مثلاً جیسے کوئی مکان لیز پر خرید لے۔اورکہے اب تو میں یہاں جو چاہوں کرسکتا ہوں،حکومت سے لیز لے چکا ہوں لیکن اسے معلوم ہونا چاہئے اس لیزکی چند شراائط ہیں، کچھ حدود و قیود ہیں ،وہاں سے غیرقانونی کام ،تجارت، کاروبار اورسرگرمیاں جاری نہیں رکھی جاسکتی ۔ انسان کسی ملک کی کرنسی کو حاصل کرسکتا ہے اس سے فائدہ اٹھاسکتاہے لیکن اس کی تحقیر، تذلیل یا اسے اہانتاً جلا نہیں سکتا،علی الاعلان کرنسی جلانے والوں کو بغاوت کے مقدمہ کا سامناکرنا پڑے گا۔میرا جسم ہے میں ہیروئن یا منشیات استعمال کروں گا۔تو یقیناً سرکار ایسا کرنے سے اسے روکے گی،بعض ملکوں میں ہیروئن ہاتھ میں ہونے کی سزا موت ہے۔
اسی طرح انسان بولے میرا جسم ہے میں خودکشی کروں گا،تو دنیا کے ایک آدھ ملک کے سوا سب اس کے عمل کو جرم تسلیم کریں گے اور اسے اس سے روکا جائے گا!لہذاجہاں جہاں بھی مرضی کے نام پرملکی حدود کی خلاف ورزی ہوگی تو بغاوت شمار ہوگی،سیاسی حدوں کو پھلانگنے پر سزائیں ملیں گی،معاشرتی وسماجی حدوں کو عبور کرنے پر سماجی بائیکاٹ کا خطرہ ہے،جسمانی حدوں سے گزرنے والے کوبیماریوں کی صورت میں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔
دوم:
جس مرضی کی بات کی جارہی ہے وہ عموما انسانوں میں 30 ، 35 برس اور بس۔بڑھاپے میں ان افراد سے ان کی مرضی کی بابت دریافت کیاجائے تو یہ لوگ حسرت وتاسف اورندامت کے سوا اورکیاکہیں گے۔اب ان سے سوال کیاجائے اب کہاں گئی آپ کی مرضی،اب ان کو نہ ان کے اپنے پوچھتے ہیں اورنہ ہی غیر۔اوراگر بندہ رب کی مرضی پر چلنے والا ہو تو پھر جس قدر اس کی عمر ڈھلتی ہے لوگ ان کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں اور یہ مرجع خلائق بن جاتے ہیں۔
سوم :انسان کی مرضی چلتی کب ہے؟
پیدا ہوتا ہے نرسوں کے ہاتھ میں،پھر ماں باپ کی مرضی،استاد کی مرضی،بیمار ہو تو ڈاکٹر کی مرضی،عدالت میں پیش ہوتو جج کی مرضی،جہاز میں پائلٹ کی مرضی،دریا میں گرا پانی کی مرضی،آگ میں گھرا آگ کی مرضی، ہوامیں اڑا ہوا کی مرضی،خاک میں دبا خاک کی مرضی،ہندو،مسلمان،سکھ ،عیسائی مرجانے کے باجود بھی اپنی رسومات کے مطابق اس کی آخری رسومات اداکریں گے؟ الغرض اوپر سے نیچے آنے میں دوسروں کے محتاج،نیچے سے اوپرجانے میں بھی دوسروں کے محتاج ان کے رحم و کرم پر،پھر اس کواپنی مرضی چلانے کا موقع ملا ہی کب؟اگر دین اسلام کو موضوع بحث بنائے بغیر بھی ہم دیکھیں تو ہم اس بات کو تسلیم کریں گے ۔
ان سطور میں عورتوں کے عالمی دن منانے کے خلاف بات نہیں کی جارہی ۔لیکن یہ یاد رکھا جائے کسی دن کو منانے کی حاجت و ضرورت تب پیش آتی ہے جب اس امر سے متعلق اجتماعی طور پر معاشرے میں استیصال کیا جارہا ہو، جہاں کسی معاملے کو اہمیت نہ دی جارہی ہو،جہاں اقدار کی پامالی ہورہی ہو پھر ماننا پڑے گا مغرب میں عورتوں کا استیصال کیا جارہاہے،وہاں سال میں ایک بار مدرڈے، فادرڈے،وومین ڈے مناکر پورا سال ان کا استیصال کیا جاتاہے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اس مملکت خداداد میں دین حنیف کے ماننے والوں کو جن کا دین عورت کو مکمل عزت،وقار،حیثیت اورپہچان دیتا ہو اس میں یہ اخلاقی پستی آگئی ہے کہ یہ دن منا
نے کی ضرورت پیش آئی۔حالانکہ اس دین کی تعلیمات کے مطابق صنف نازک کو جومقام حاصل ہے اس کی روسے یہ نوبت آنی نہ چاہئے تھی۔ عورت اپنے چاروں روپ میں ہمارے لئے محترم ،مقدس اورباعزت ہے۔ ماں کی صورت میں ٹھنڈی چھاؤں ہے،بیٹی کی صورت میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور رحمت خداوندی ہے،بیوی کی صورت میں لباس وبہترین تحفہ ہے اوربہن کی صورت میں عزت و آبرو ہے۔اس دنیا کی زینت، ملکوں کی آبادیاں اورقوموں کی عزت ان ہی سے ہے۔بقول الطاف حسین حالی
اے ماؤں! بہنوں! بیٹیوں!دنیا کی زینت تم سے ہے
ملکوں کی بستی ہو تمہیں، قوموں کی عزت تم سے ہے
کوئی نعرہ لینے سے پہلے اس کے پس منظر اور معروضی حقائق کو دیکھ لینا چاہئے۔ اب یہ نعرہ اس معاشرے کی عورتوں کا ہے ہی نہیں کہ انہیں اسقاط حمل کی اجازت یا دیگر چند اجازتیں(۔۔۔) درکارہوں۔الامان الحفیظ۔ یہ مغربی اقوام کی ان خواتین کا نعرہ ہے جہاں قرضوں میں بال بال جکڑی 18 سالہ محنت کش لڑکی جو پہلے ہی زیر بار ہو ،وہ اولاد کی صورت میں مزید کسی بوجھ کی متحمل نہیں ہوسکتی اگر وہ اسقاط حمل کے لئے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بلند کرتی ہے یہ ان کی تہذیب وثقافت،معاشرتی اقدار وفکر وفلسفہ ہے۔لیکن ہماری عورتوں کو کیا ہوگیا وہ اس نعرہ کا پس منظر ،عواقب اورنتائج سے بے خبر ہوکر یہ نعرہ بلند کرنے لگیں اوریہ بھی نہ سوچا کہ ہمارے معاشرے میں اگر شادی کے کچھ عرصہ بعد تک گھر سونا رہے تو عورت اور اس کے گھر والے تحقیق و تفتیش شروع کردیتے ہیں پھر یہ نعرہ لگانے والیاں یہ کیوں نہیں سوچتی! ان کی حالت تو اس شخص کی مانند ہے جس نے انعام کے لالچ میں حاکم کی خوشامد کے لئے ایک شعر پڑھا اور کوڑے کھاکر واپس آگیا۔
حکایت کچھ یوں ہے کہ ایک شخص نے حاکم وقت( جوبہت سے اشعار کا حافظ اورسیاق وسباق سے آگاہ تھا) کی توصیف میں ایک شعر اس امید پر پڑھا کہ وہ انعام کا مستحق قرار پائے گا لیکن حاکم نے اسے کوڑے لگوادیئے اور کہا تم جانتے ہو اس شعر کا پس منظر کیا ہے۔ اس نے کہا نہیں ۔حاکم نے کہا یہ فلاں شاعر نے اپنے کتے کی تعریف میں کہا تھا اب اگر تم کتے کی تعریف مجھ پر چسپاں کروگے تو میں تم پر کوڑے ہی برساؤں گا۔خوشامد کرنے سے پہلے تول لیا کرو۔کسی کی بات کو پھیلانے سے پہلے یہ جان لو کہ ان کے مقاصد کیا ہیں۔
میری ناچیز رائے میں اس نعرے کے پس منظر میں بھیڑیوں کی اپنی شکارگاہوں میں نئے شکار کو مدعو کرناہے۔میرے مخاطب وہ شکاری نہیں جو گھاک ،مستعد،تند،مکار اور ابلیس کے آلہ کار ہیں بلکہ میرے مخاطب وہ بے شعور افراد ہیں جو اس نعرہ کے بھید سے آگاہ ہوئے بغیر ان کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں،یا پھر ان باتوں کو شیئر کررہے ہیں اوردیگرافراد تک ان کے ابلیسی نعرے کو پہنچاکرانہیں فریب دام میں لانے اور ان کے شکار کا بندوبست کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے اس نعرہ “میری مرضی”کی آڑ میں بے حیائی کی ترغیب دلائی جارہی ہے جو معاشروں کو تباہ و برباداورقوموں کو نیست و نابود کردیتی ہے۔اس تباہی بربادی کے آنے سے پہلے انسان اس ظاہری دنیا میں غور و فکر کرے، وہ کیا عوامل ہیں جو انسانوں کو بے حیائی کی جانب لے جاتے ہیں تو شایداس کے دو اہم اسباب ہیں۔اول نفسانی خواہشات (باطنی اسباب) اور دوسرا حُسن وجمال(ظاہری اسباب)۔حسن و جمال کی بابت عرض یہ ہے کہ جس شخص کا حسن و جمال اسے آج فریفتہ کئے ہوئے ہے دیوانہ بنائے ہوئے اوراسے برائیوں کی طرف مائل کررہا ہے اس کے حسن وخوبصورتی کی حقیقت و انجام سے بھی آگاہ ہوجائیں تو شاید اس سے براءت کا اظہار کردیں۔ ایک حکایت پڑھی تھی وہ یہاں پیش خدمت ہے :
ایک بزرگ سے ان کی خادمہ نے شکایت کی ان کا ایک مرید اس کی محبت میں گرفتار ہے اور بدنظری میں مبتلا ہے،انہوں نے اس کے علاج کی یہ تدبیر کی کہ خادمہ کی مرضی سے اسے سخت مسہل دوا دی اورہدایت کی کہ وہ فضلہ کو جمع کرلے،مسہل دوا نے جلد اپنا کام دکھایا اور چند روز میں اس خوبرو نوجوان حسینہ کو مرجھا کرکمھلادیا اور اس کو بہت زیادہ بد ہیئت کردیا۔
اس صورت میں بزرگ نے مرید کو اس مقام پر بلایا جہاں وہ خادمہ مدقوق زدہ انتہائی کمزوری کے عالم میں لیٹی تھی۔ جب مرید نے اس کے چہرہ کو دیکھا تو ایک دم نظر پھیر لی۔ اس کی آنکھوں میں بیگانگی،بیزاریت کے آثارنمایاں تھے۔ بزرگ نے فرمایا بیٹا یہ وہی ہے جس کے تم عشق میں مبتلا تھے۔ پھر اس کا جمع شدہ فضلہ منگواکرکہاشاید اس میں کچھ کمی واقعی ہوگئی ہو ، یہ وہ فاضل مادہ ہے جو اس عورت کے جسم سے خارج ہوا اور تم اس سے بیزار ہوگے۔تمہاری محبت ،الفت،کشش،جاذبیت ساری کی ساری یعنی اس فضلہ میں موجود ہے۔یہ سننا تھا کہ وہ شخص دھاڑے مار کررونے لگا اور توبہ تائب ہوا۔
اب گزارش ہے کہ اس نعرہ والوں سے اگرانہیں اپنے حسن پر غرور ہے تو وہ اس واقعہ میں بیان ہوچکا !کچھ مزید کہنا بے کار،فاعتبروا یا اولی الابصار
میں ہوں بندہ اور تو مالک
میرا جسم اور تیری مرضی
جملہ معترضہ:
برسبیل تذکرہ اگراس نعرہ کا سبب موجودہ مسلم (نہ کہ اسلامی) معاشرے میں (کم علمی ، جہالت اوراسلام سے دوری کے سبب) خواتین پرپائی جانے والی بے جاپابندیاں یا سختیاں ہیں) ان پابندیوں،سختیوں اورمظالم کے سدباب کے لئے اگرمیں(وہ باغی خاتون) ان مظالم کے خلاف علم بغاوت بلند کررہی ہوں۔اگرواقعی اس لئے یہ نعرہ بلند کیا گیا ہے توکم از کم اس نعرہ کوشرافت کا لبادہ اوڑھا کر ان الفاظ میں ڈھالا جائے میرا ذہن میری مرضی۔میری سوچ میری مرضی ،میری فکر میری مرضی ۔ان الفاظ میں یہ نعرہ پیش کرنے سے اس نعرے کے مخالفین کی زبانوں پر اتنی تلخی اور کڑوا پن
محسوس نہ ہوگا ۔کیونکہ الفاظ کے چناؤ سے بھی بہت فرق پڑ جاتاہے۔مثلا!اگر کوئی شخص کسی ضرورت سے آپ کے پاس آئے اور آپ اسے “محتاج” کے لقب سے نوازیں تو اس لفظ کو وہ کبھی قبول نہ کرے گا بلکہ اس کا برامنائے گا۔حالانکہ ایک معنی میں محتاج ہی ہے۔ہاں اس کی احتیاج کچھ بھی ہوسکتی ہے۔
لب لباب:جب یہ چیز مستحضر ہوگئی کہ میری مرضی تو کہیں بھی نہیں چلتی اگر چل بھی رہی ہے تو وہ صرف موافقت کے ساتھ،توایسی صورت میں ہم پر لازم ہے کہ ہم رسول اکرم ? کے فرامین پر عمل کرتے ہوئے حیاپر عمل کریں جس میں ہمارے لئے دنیا وآخرت میں بھلائیاں ہی بھلائیاں نصیب ہوں۔حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے:الحیاءلایاتی الابخیر۔(صحیح مسلم،ج1،رقم 63)حیا صرف بھلائیاں ہی لاتی ہے۔اس حدیث مبارکہ کو والد محترم جناب ابو علی محمد رمضان صاحب(مرحوم) نے منظوم انداز میں کچھ اس طرح پیش کیا
ہے:
یہ طرز بے حیائی نہیں خوب میرے دوست
بن جاحیا پسند حیا اختیار کر
سچے نبی (ﷺ) کا قول ہے سچاہے بالیقیں
دیکھو حیامیں خیر ہی خیرآئے گا نظر
آخر میں حیا سے متعلق عرب شاعر جناب صالح العمری کےچند اشعار کامفہوم پیش خدمت ہے جنہوں بہت ہی بلیغ انداز میں حیاءکے مفہوم،فضائل اورفوائد کوبیان کیاہے:”قلوب کو حیاءسے آراستہ کر لیں حیا کی خود اللہ رب العزت نے توصیف فرمائی۔ اور یہ اللہ کا وصف ہے جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے کہ اللہ جب اپنے بندے کو گڑگڑاتے ہوئے دعا مانگتے ہوئے دیکھتا ہے تو اپنے بندے کو خالی بھیجتے ہوئے اسے حیا آتی ہے۔حیا معزز و مکرم فرشتوں کی خصلت اور انبیاءکی پہچان رہی ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ کی حیا بارے میں روایات میں ملتاہے کہ حضورﷺ عفت پسند باپردہ کنواری دوشیزہ کی طرح شرمیلے اور باحیا تھے ۔حیا مردوں کی بہترین خوبی اور عورتوں کا عمدہ ترین وصف ہے۔ حیا انسانی نسلوں کے لئےراہ نجات، بھلائیوں کی رغبت اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے۔حیاشخصیت کو بد کاری وبد بختی سے محفوظ رکھتی ہے۔ حیا دنیا میں مثل شمس روشنی بکھیرتی اور پانی اور ہوا کی مانند زندگی بخشتی ہے۔حیا جسم میں روح کی مانند ہے اس لئے حیا کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔انسان اگر بے حیا ہو جائے تو وہ جوچاہے کرتا پھرے رب کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے اذالم تستحی فاصنع ما شئت۔اگر تجھ میں حیا نہیں تو جوچاہے کرتا پھر۔”
اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں وہ ہمیں اور ہمارے معاشرے کو باحیا اور اسلامی حدودوقیود کا خیال رکھنے والا بنائے جن کے مردو زن کی نظروں میں حیا اور عورتوں کے ملبوسات باحجاب ہوں۔آمین
ای میل:yahyaramzan@gmail.com