قادر خان یوسف زئی
ایسا وقت قریباََ ہر فرد ضرور آتا ہے جب اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے ۔ ایسا سُنا ہے لیکن کبھی دیکھا نہیں کہ سایہ بھی ساتھ چھوڑ دے ، کیونکہ جب تک انسان کی سانس ہے، اُس وقت تک آس ہوتی ہے۔ معاملات میں مدوجزر ا نسا نی زندگی کا حصہ ہیں ، جو شش و پنج اور کشکمش میں الجھے ہوتے ہیں۔الجھنوں ، قوت فیصلہ و مستقبل کے تفکرات سے کوئی مبرا نہیں ہوسکتا ۔ کئی ایسے سفید پوش دیکھے ہیں جو اپنی تمام تر پریشانیوں اور تکالیف کا بہادری سے سامنا کرتے ہیں اور اپنے سینے پر بے رحم زمانے کے تیر کھاتے چلے جاتے ہیں ، لیکن پھر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر جاتے ہیں تو ان کی ضرورت بن جاتی ہے کہ کوئی آگے بڑھے اور اُس کا ہاتھ تھام کر اٹھانے میں مدد کرے۔ وہ خود بھی کوشش کرکے دوبارہ اٹھ سکتا ہے لیکن کندھوں پر بوجھ زیادہ ہوں تو اس کی قوت حوصلہ بھی جواب دے جاتی ہے۔ان حالات میں وہ رب کائنات سے ایسی سبیل کا انتظار کرتا ہے جو اس کی سفید پوشی کابھرم رکھ سکیں ۔ شاید اُس کی اَنا اور خود داری اُسے کھل کر کچھ کہنے سے روکتی ہو لیکن یہ بات واضح ہے کہ اُسے جس پر سب سے زیادہ بھروسہ ہوتا ہے وہ اللہ تعالی کے بعد اُس بندے سے ہی رجوع کرتا ہے ۔
وقت تو کسی کے لئے ٹھہرتا نہیں ہے ، سورج کو ابھرنے اور غروب ہونے سے کون روک سکا ہے ؟۔ وقت تو اُس وقت تھمے گاجب صور اسرافیل پھونکی جائے گی ۔ اس لئے جب اس بات کا یقین ہو کہ وقت کسی کے لئے تھما نہیں ، کسی لئے رکا نہیں تو زندگی کا یہ سفر بڑھتا ہی چلے جائے گا ۔مجھ سے کئی احباب مختلف ذرائع سے رابطہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کے مسائل کو حل کرنے میں مدد و تعاون کروں ، میں تفصیل سے اُن کی ساری بات سُن لیتا ہے ، میں کوشش اُس وقت تک کرتا رہتاہوں جب تک اُس کے دل کا بوجھ ہلکا نہ ہوجائے ۔ جھوٹی تسلی و آسرادینا بہت خطرناک ہوتا ہے اور ٹوٹے ہوئے انسان کو مزید توڑ دیتا ہے ۔ کچھ کے مسائل حل ہوجاتے ہیں ، کچھ کے نہیں ۔ لیکن ڈھنڈورا نہیں پیٹتا ، جو مسائل حل نہیں کرپاتا ، تو یہ ضرور سوچتا ہوں شاید اُن کی بھی کوئی مجبوری ہوگی لیکن میں شرمندگی ضرور محسوس کرتا ہوں کیونکہ اتنا جانتا ہوں کہ وہ کرسکتا تھا ، لیکن اس کے بعد اُس شخص پر میرا اعتماد زندگی بھر کے لئے ختم ہوجاتا ہے۔
میں جس پروفیشن میں ہوں اپنی زندگی کی آدھی سے زیادہ بہاریں ، خزاں کی طرح گذار چکا ہوں ۔ اکثریت اس پیشے سے وابستہ احباب کو ایک ہی ترازو میں تولتی ہیں ، لیکن یقین کیجئے کہ ایسا بالکل نہیں ہے ۔اہل صحافت میں بہت ہی اچھی و قابل اعتبار شخصیات بھی ہیں ، لیکن زمانے کی سرد و گرم فضاﺅں کے سبب، گھمبیر صورتحال میں بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے انگاروں پر چلتے ہیں ۔ میں بارہا اس امر کا اظہاریہ کرچکا ہوں کہ کسی بھی شخص سے توقعات وابستہ ہونے کا سبب اُس فرد کا روا رکھے جانے والا رویہ ہوتا ہے ۔ اس کی مخلصانہ و کھلے نظریات کے ساتھ وابستگی اور گفتگو ، انسانی توقعات کو بڑھا کر یقین کی حد لے جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ توقعات کے برعکس ہونے سے وقتی دلی تکلیف ہوتی ہے۔
آپ نے بھی ایسے احباب دیکھے ہونگے جب اپنی شدید پریشانی میں رابطہ کرتے ہیں تو اُن کے جواب کے انتظار میں وقت ہی گذر جاتا ہے اور ڈپریشن کے سبب اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ صحافتی دور میں کئی بار قاتلانہ حملوں کا شکار و سنگین مسائل سے دوچار ہوا ہوں ، رب کائنات نے زندگی و آزمائش ساتھ ساتھ لکھی ہوئی تھی اس لئے چل رہی ہے ۔ اسی طرح دھمکیاں ملنا تو جیسے معمول کی بات ہو ، تلخ تجربات کے سبب کبھی کسی سے توقع نہیں رکھی بلکہ اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ رکھا اور یقین کیجئے اس نے اپنے دَر سے کبھی ناامید نہیں کیا۔ یہ ضرور ہے میں نے زندگی میں اگر کچھ پایا تو یہ کہ میرے دوست سے زیادہ دشمن بنے ۔ ”دوست“ بھی بہت زیادہ ہوتے لیکن میری فطرت میں نہیں ہے کہ میں خوشامد و چاپلوسی کو شعار بنا کر اپنی آنے والی چند روزہ زندگی کو برباد کرلوں ۔
موت کو کئی بار اتنے قریب سے دیکھ چکا ہوں کہ اب موت سے اس لئے ڈر نہیں لگتا کیونکہ مجھ پر گذر چکی ہے کیونکہ برحق ہے ۔ تعلقات کی نوعیت وسیع تر ہے ، لیکن اسے کبھی ناجائز فائدے کے لئے استعمال نہیں کیا ۔ کیونکہ جانتا ہوں کہ ایک غلط قدم مجھے وہ سب کرنے پر مجبورکردے گا ، جو میں نہیں کرنا چاہتا ۔ لیکن زندگی میں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ میں اپنی خود اعتمادی کو برقرار رکھنے کے لئے خود کو آزمائش میں ضرور ڈالتا ہوں اور جن سے بہت زیادہ توقعات ہوتی ہیں ، اُن کو مزید سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ پھر جو وہوتا ہے ۔ اُسے ضبط تحریر میں لانا مناسب نہیں ۔
جدید دور ہے ، واٹس ایپ یا فون بلاک کا باآسانی علم ہوجاتا ہے اسی طرح جواب نہ ملنے کا بھی پتہ چل جاتا ہے ۔ اس لئے میں ایسے تمام احباب سے معافی کا خواستگار ہوں جو مجھ سے توقعات بہت رکھتے ہیں لیکن میں اُس پر پورا نہیں اُتر پاتا تو مجھ سے ناراض مت ہوں ۔ میں بھی ان مراحل سے گذرتا رہتا ہوں ، دکھ تو ہوتا ہے لیکن اللہ تعالی کی ذات سے ناامید کبھی نہیں ہوتا کیونکہ وہی مسب الاسباب ہے ۔
آج کا اظہاریہ خالصتاََ اُن کے لئے لکھ رہا ہوں جو مجھ سے وابستہ احباب ، رشتے دار اپنے اور پرائے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ میں سب کچھ کرسکتا ہوں، لیکن کرتا نہیں ۔ یاد رکھیئے کہ انسان ہوں، خوبیاں کم خامیاں زیادہ ہوں گی ۔ میری کچھ حدود واستطاعت ہے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں، لیکن اللہ تعالی پر یقین کامل رکھا ہے کہ ہر مشکل وقت و آزمائش میں وہی ایک ذات ہے جو مدد کرتی ہے۔ آپ بھی ا
پنے یقین کو مزید کامل بنائیں۔مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی کی ذات پر آپ کا یقین مجھ سے زیادہ ہوگا اس لئے اپنی ہمت و کوشش سے مایوس نہ ہوں ۔ مشکل وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا ۔آپ مجھ پر ناراض مت ہوں کہ میں آپ کے لئے کچھ نہیں کرسکا ۔ کرنے والا اللہ تعالی کی واحد ذات ہے ۔ میں کسی کا نام نہیں لے سکتا ، لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے اس کالم میں اُ ن تمام احباب کے لئے میری مجبوری و معافی نامہ ہے جو مجھ سے کسی نہ کسی رشتے میں جُڑے ہیں، وہ میری کیفیت کو سمجھیں گے اور میری ہمت بھی بڑھائیں گے۔ ان شا اللہ
پردہ پوشی کم سے کم ہوتی ہے ہر کردار کی
پیرہن لفظوں کا بنتا ہے کہانی کا لباس
ای میل:qadirkhan.afghan@gmail.com
(مضمون نگار تفتیشی صحافی،سیاسی تجزیہ کار، شدت پسند،جہان پاکستان گروپ کے ایسوسی ایٹ میگزین ایڈیٹر/کالم نگار/نمائندہ خصوصی ہیں)