As soon as Taliban return the situation in Afghanistan started worsened ,says former army chief V P Malikتصویر سوشل میڈیا

افغانستان پر طالبان کا پوری طرح قبضہ ہو چکا ہے ۔ اس کے ساتھ ، افغانستان میں 20 سال بعد پھر سے طالبان راج لوٹ آیا ۔ طالبان کی واپسی ہوتے ہی وہاں کے حالات خراب ہونے لگے۔ افغانستان کا دعویٰ ہے کہ اس بار وہ اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کا تحفظ کرے گا۔ تاہم ، حقیقت میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ دنیا کی نظریں افغانستان کے حالات پر جمی ہوئی ہیں۔ طالبان کا اگلا قدم کیا ہوگا ، افغان فوج نے طالبان کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے اور افغانستان پر طالبان کے قبضے کا ہندوستان پر کیا اثر پڑ سکتا ہے ؟ اس سلسلے میں ‘پنجاب کیسری’ کے بلونت تکشک نے سابق آرمی چیف وی پی ملک سے بات کی۔ پیش ہے ان سے ہوئی بات چیت کے اہم اقتباسات۔

آپ افغانستان میں بغاوت کو کیسے دیکھتے ہیں؟
یہ جنوبی ایشیا میں ایک بہت بڑا واقعہ ہوا ہے اور جس طرح سے طالبان نے وہاں دوبارہ قبضہ کر لیا ، اس کا اثر پورے خطے پر پڑے گا اور ہو سکتا ہے اس کا اثر باقی دنیا کو بھی دیکھنا پڑے ، لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ اس وجہ سے ہندوستان ، پاکستان ، ایران ، ترکمانستان ، تاجکستان جیسے ممالک پر اس کا بہت زیادہ اثر پڑے گا۔ خاص طور پر سیکورٹی کے لحاظ سے ، صورتحال پہلے سے زیادہ خراب ہو جائے گی۔
طالبانیوں کی تعداد 70 ہزار کے لگ بھگ تھی ، جبکہ افغان فوج کے پاس 3.5 لاکھ سے زائد فوجی تھے۔ پھر فوج نے طالبان کے سامنے کیسے ہتھیار ڈالے؟
فوج بنانا ایک مشکل کام ہے ، اسے موثر بنانا بہت مشکل کام ہے ، لیکن فوج کو تباہ کرنا بہت آسان ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اتنی بڑی فوج ، جو افغانستان میں کھڑی کی گئی تھی ، ا سمیں جو لیڈر شپ تھی ، پولیٹیکل یا فوجی لیڈر شپ ، بہت کرپٹ رہی ہے۔ اسی کے درمیان نیپو ٹزم ( اقربا پروری) تھی ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا رجحان تھا اور لیڈر شپ اور جوانوں میں ، ا ن کے درمیان بہت بڑا فرق تھا۔ میں نے سنا ہے کہ فوج کے جوانو ں کو کئی ماہ سے اپنی تنخواہ بھی نہیں ملی۔ جب اتنا بڑا گیپ ( خلا ) پیدا ہوجائے گا اور لیڈر شپ اتنی خراب ہو توفوج سے بہت زیادہ توقع نہیں کی جا سکتی۔فوج کے لیے ہتھیار بہت ضروری ہوتے ہیں ، لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ان کا حوصلہ ، تنظیم اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور سب سے بڑی بات لیڈر شپ کی ہے۔
نائب صدر امر اللہ صالح اس وقت وادی پنجشیر میں قیام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب صدر وہاں نہیں ہوتا تو نائب صدر قائم مقام صدر ہوتا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ افغانستان کو دوبارہ طالبان سے آزاد کروا سکیں گے ؟
انہوں نے ایسابیان دیا ہے ، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ کتنے لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو پرانا تاجک لیڈر تھا ، جن کی بہت عزت تھی، احمد شاہ مسعود ، ان کا بیٹا (صالح) ساتھ ہے، لیکن ابھی بہت وقت ہو گیا ہے۔ دیکھنا ہے کہ لوگ ان کی پیروی کر رہے ہیں یا نہیں؟
طالبانیوں نے مخالفین کے لئے عام معافی کا اعلان کیا تھا، باوجود اس کے فوج کے چار کمانڈروں کو بھیڑ کے سامنے مارڈالا۔ کیایہ ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہے کہ ایک طرف تو عام معافی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف فوج کے کمانڈروں کی بھیڑ کے سامنے ہلاک کردیتے ہیں ؟
یہی بات ہمیں دیکھنی ہے کہ طالبان نے جو بیان دیا ہے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد اسے فالو کرتے ہیں یا نہیں۔ پبلک سے کیسا برتاﺅ رہتا ہے ، خاص کر عورتیں کے ساتھ، ان کا پاکستان اور باقی دنیا کے ساتھ کیس رشتہ رہتا ہے ، یہ بھی دیکھنا پڑے گا۔ آپ صحیح کہہ رہے ہیں کہ طالبان کی طرف سے دوغلے پن کا اظہار ہو رہا ہے لیکن تھوڑی دیر ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کیسے سلوک کرتے ہیں۔ ہندوستانی ہی نہیں ،ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ آگے کیا صورت حال بنتی ہے۔ خاص کر ان دیشوں میں جن پر اس کا سب سے زیادہ اثر پڑنا ہے۔
طالبان نے اس بار عورتوں کو بھی اقتدار میں شامل ہونے کے لئے مدعو کیا ہے اس سے پہلے جب طالبان افغانستان پر راج کررہے تھے تب وہاں عورتوں کی حالت دوسرے درجے کے شہریوں کی تھی ، لیکن اس بات انہوں نے کہاکہ وہ تخلیقی کردار نبھائیں گے اور عورتوں کو بھی اقتدار میں حصے داری دیں گے ؟
دیکھئے ، یہ پھر دوہری بات ہوسکتی ہے جب وہ اپنے کہے پر عمل کریں گے تب ان پر یقین کیاجائے گا۔ میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ کھتنی سے کرنی بھلی ہوتی ہے، تو ابھی طالبانی کیا کرتے ہیں اس کو دیکھنا پڑے گا۔
افغان عورتیں کہہ رہی ہے کہ انہیں پھر سے برقعہ ڈالنا پڑے گا ، آزادی چھن جائے گی۔ پڑھائی پر اثر پڑے گا۔ کیا عورتیں اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند نظر نہیں آرہی ہیں ؟
صحیح بات ہے ، جنہیں جان کی پرواہ ہوگی انہیں ان کے مطابق قدم اٹھانے پڑیں گے ، برقعہ پہننا بھی ان میں سے ایک ہے۔ جب بنا برقعہ باہر نکل ہی نہیں سکتی ہیں تو کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
طالبان کی کٹڑ پنتھی اسلامک سوچ ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ ایسی سوچ کے چلتے افغانستان میںقانون کا راج قائم ہوپائے گا؟
بالکل یہی بات جس طرح کی کٹڑ پنتھی سوچ ہے اور 20 سال میں جس طرح سے افغانستان چلا ہے ، پبلک چلی ہے ، ان کے پاس جو فریڈم تھا اس پر کیا اثر پڑے گا اور کئی چیزیں ہوتی ہیں آپ کی جو آئیڈیولاجی ہوتی ہے لیکن اس کا جب آپ پبلک کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں تو بہت مشکل آتی ہے۔ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کس طرح سے راج کرتے ہیں۔ زبردستی کی تو راج نہیں چل پائے گا۔ ماضی میں ایسا ہوچکا ہے۔ انہوں نے یہی غلطی پھر دوہرائی تو راج لمبا نہیں چل پائے گا۔ میرے حساب سے پوری دنیا ان کو دیکھ رہی ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں رہے ہیں کہ جب روس افغانستان میں دلچسپی لے رہا تھا، تب امریکہ طالبان کی مدد کررہا تھا اور جب روس افغانستان سے چلاگیا تو امریکہ طالبان کے خلاف ہوگیا۔ کیا امریکہ نے کبھی تصور کیا ہوگا کہ جیسے ہی اپنی فوجوںکو ہٹائے گا ، افغانستان میں جنگل راج کے حالات پیدا ہوجائیں گے ؟
میرے خیال میں نہیں ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی آرمی کی جو اسیسمنٹ تھی ، خاص کر انٹیلی جینس سورسز کی اسٹیٹمنٹ غلط رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جس طرح سے ان کو بھاگنا پڑا اور جس طرح سے وہاں نقصان ہوا ، لوگوں کی جانیں گئیں ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی جو سٹرٹیجک اور انٹیلی جنس اسسٹمنٹ تھی ، غلط ثابت ہوئی ہیں۔
افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوتے ہی چین ، پاکستان و روس فورا ًحمایت میں کھڑے نظر آئے۔ آپ اس گٹھ جوڑ کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ابھی ہوسکتا ہے کہ ایک دو اور دیش بھی طالبان کو تسلیم کر لیں۔ ترکی اور ایران بھی اسے تسلیم کر سکتے ہیں۔ ہر دیش اپنا اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ چین بھی اپنا مفاد دیکھ رہا ہے۔ شاید اپنے سی پیک پروجیکٹ کو بڑھانا ان کا مقصد ہو۔ افغانستان میں جو کاپڑمائنس سمیت دوسری مائنس ہیں ان پر کنٹرول کا ارادہ ہو۔ اسی طرح ہر دیش چاہے پاکستان ہو یا پھر روس ہو کوئی اپنا قومی مفاد دیکھ رہا ہے۔ آگے یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ طالبان اپنے دیش میں کیسے راج کرتا ہے۔
افغانستان 20 سال پہلے جہاں تھا ، پھر وہیں کھڑا ہوگیا ہے۔ طالبان راج میں افغانستان کا کیا مستقبل ہے ؟
ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ طالبان2- کیسے راج کرتا ہے ، اگر انہوں نے طالبان1-کی طرح کام کیا تو حالات خراب ہوجائیں گے اور یہ سب زیادہ نہیں چل پائے گا۔ کیا طالبانی بدل گئے ہیں ابھی یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگلے ایک دو مہینے کے اندر پتہ چل جائے گا۔ ظلم ہوا تو پھر کارروائی ہوگی پوری دنیا ، ہماری بھی ہونی چاہئے۔
ایک آرمی چیف کے نظریے سے میں جاننا چاہتا ہوں کہ بین الاقوامی طاقتوں نے 20 سال سے افغانستان کو اکھاڑا کیوں بنا رکھا ہے ؟
یو ایس اے کی جو ا سٹریٹیجک پالیسی ہے وہ میرے حساب سے اپنی سمت بدلتی رہتی ہے۔ دیکھئے جب 2001 میں یو ایس اے نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کابل پر حملہ کیا تھا تو ایک ہی مدعا تھا کہ طالبان کو افغانستان سے ہٹائیں گے یہ کرلیا تو کچھ سالوں کے بعد فوکس عراق کی طرف شفٹ کردیا۔ انہوں نے اپنا دھیان بانٹ لیا۔ عراق میں بھی اور افغانستان میں بھی پھر بعد میں اوسامہ بن لادن کو مارا صحیح بات تھی لیکن اس وقت انہیں چلے جانا چاہئے تھا پھر دوسرا نشانہ شروع کیا افغانستان نیشن بلڈنگ کا۔ افغانستان جیسے دیش میں جہاں پر قبائلی ہیں ، جہاں پر مواصلاتی نظام ٹھیک نہیں ہے ہر قبیلہ مضبوط اور الگ الگ قسم کے لوگ ہیں۔ وہاں ایک ڈیموکریٹک سسٹم اور ماڈرنائزیشن لانا آسان کام نہیں ہے۔ بہت مشکل ہے۔ اسی میں امریکی مات کھاگئے۔ پھر بعد میں فیصلہ کیا کہ ہم اپنی فوج ہٹا لیں گے۔ آدھے کام کے بعد انہوں نے سوچا کہ فوج کو افغانستان سے ہٹا لیتے ہیں اسی وجہ سے جو باقی دیش تھے ، یورپین اور ناٹو نے بھی فوجیں ہٹا لیں۔ اس سے ایک بڑا سبق سیکھنے کو ملتا ہے کہ ہم کو ا سٹرٹیجیک کاموں کے اوپر اپنا جو مدعا ، اپنا جو نشانہ ہے اس کے اوپر ہی چلنا چاہئے۔
ہندوستان نے افغانستان کی پارلیمانی عمارت تعمیر کرائی ۔ افغانستان کے وکاس کے لئے کروڑوں ، اربوں خرچ کئے ہیں۔ ہمیں اس کا کیا فائدہ ملا؟
ہم نے قریب تین بلین ڈالر افغانستان میں خرچ کئے ہیں۔ خاص کر تعلیم ، صحت اور بنیادی ڈھانچے کو بنانے میں۔ اس لئے اس وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا کولیٹرل نقصان ہوا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ افغانیوں کے دل میں جگہ بنائی ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے۔ افغانستان کے لوگوں کے دلوں میں ہندوستان کے لئے جو عزت و پیار ہے اس کا کبھی نہ کبھی فائدہ ضرور ہوگا۔
یہ ٹھیک ہے کہ بھارت نے افغانستان میں جو کام کیا ، طالبانیوں نے اس کا شکریہ ادا کیا ہے۔ لیکن موجودہ موجودہ حالات میں چین اور پاکستان جس طرح سے بھارت کے خلاف جارحانہ رخ رکھتے ہیں ، ایسے میں افغانستان کے موجودہ حالات کا بھارت پر کیا اثر پڑے گا؟
اس وقت ایسی چیزوں کو مختصر مدتی نہیں بلکہ طویل مدتی کی شکل میں دیکھا جانا چاہئے۔ میں نے کہا کہ اس وقت کولیٹرل نقصان ہوا ہے لیکن دور سے دیکھیں تو بھارت سرکار ، ہندوستانی لوگ اور افغانستان کی سرکار اور افغانوں کے درمیان پیار بڑھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس کا آگے ضرور فائدہ ہوگا۔
افغانستان سے متعلق ہماری آگے کی حکمت عملی کیا رہے گی ؟
فی الحال بھارت کو تھوڑا ویٹ اینڈ واچ کی ضرورت ہے صبر کے ساتھ دیکھنا چاہئے کہ طالبانی کس طرح سے آگے بڑھتے ہیں نا صرف افغانستان کے حالات ، لیکن باقی کے جو دیش ہیں خاص کو ڈیموکریٹک دیش جیسے امریکہ ، یورپین دیش اور روس ان دیشوں کی کیا حکمت عملی ہوتی ہے فی الحال جو بھارتیہ نڑاد کے لوگ وہاں پھنسے ہیں ، ہمیں انہیں نکالنے کی ضرورت ہے۔ حالات زیادہ خراب ہوئے تو باقی دیشوں کے ساتھ مل کر کارروائی کرنی ہوگی۔ چاہے فوجی کارروائی ہو یا پھر ڈپلو میٹک کوشش، اس کے لئے منصوبہ سازی کرنا ہو گی۔
کیا آپ کو لگتا تھا کہ دیش کے راشٹرپتی اشرف غنی طالبانیوں کے سامنے اس طرح سے ہتھیار ڈال دیں گے؟اچانک دیش چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟
کسی بھی کرپٹ لیڈر شپ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بڑی ہی شرمناک حرکت (غنی ) کی ہے۔ اپنا دیش چھوڑ کر بھاگ گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے پولیٹکل لیڈر شپ کی کمزوری دکھائی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *